Jump to content

ایک نواب صاحب کی ڈائری کے چند پراگندہ صفحے

From Wikisource
ایک نواب صاحب کی ڈائری کے چند پراگندہ صفحے
by مرزا فرحت اللہ بیگ
319549ایک نواب صاحب کی ڈائری کے چند پراگندہ صفحےمرزا فرحت اللہ بیگ

مکرمی جناب ایڈیٹر صاحب!السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، عرصے سے فکر میں تھا کہ رسالہ، نمائش کے لئے کوئی مضمون لکھوں مگر اس کے لئے فرصت چاہئے۔ مجھے دفتر سے چھٹکارا نہیں۔ چند روز ہوئے پیارے لال پنساری کے ہاں سے گھر میں کچھ سودا آیا تھا۔ میں دفتر سے آکر لیٹا تھا۔ پڑیوں پر نظر پڑی۔ اٹھا کر دیکھنے لگا معلوم ہوا کہ کسی کی سوانح عمری کے صفحات ہیں۔۔۔ مضمون دل چسپ اور خط صاف تھا۔ تمام پڑیاں کھول ڈالیں۔ دیکھوں تو عجب پر لطف واقعات ہیں۔ اسی وقت پیارے لال کے ہاں پہنچا۔ وہاں اور بھی چند کاغذات ملے مگر سب متفرق و پریشان۔جو کچھ ملا ہے اس کی نقل روانہ کرتا ہوں۔ میں محنت سے بچا اور آپ کو ایک دل چسپ مضمون مل گیا لیکن افسوس اس کا ہے کہ ڈائری کا مکمل نسخہ نہ ملا اور نہ اب ملنے کی امید ہو سکتی ہے۔ خیر حاضر میں حجت نہیں۔والسلام(مرزا الم نشرح)دیباچہ ڈائرییہ ناچیز خادم ملک و ملت نواب اسد یار خاں ناظرین کرام کی خدمت میں عرض پرداز ہے کہ اس کم ترین کو کتوں سے ہمیشہ نفرت رہی ہےا ور رہنی بھی چاہئے۔ کیونکہ جب باری تعالیٰ نے ان ناپاک ہستیوں کو نجس العین فرمایا ہے تو انسان ضعیف البنیان کیا ہستی ہے کہ ان احکام کی خلاف ورزی کرے اور جب ہمارے ہادیٔ برحق نے کتوں سے کنارہ کرنے کی ہدایت فرمائی ہے تو اب کس کی مجال ہے کہ ان ہدایتوں پر عمل کرنے سے گریز کرے۔اکثر اصحاب اس ناچیز سے دریافت فرماتے ہیں کہ آخر کتوں سے نفرت کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب میں پہلے تو شیکسپئر کے اس فقرے سے دیتا ہوں کہ’’جذبات انسانی طبیعت کے تابع ہیں۔ طبیعت اپنے حسب دل خواہ ان جذبات کو نفرت یا رغبت جس طرف چاہے پھیر دیتی ہے۔‘‘ دوسرے میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ میرے خیال ناقص میں کتوں کا ہلاک کرنا کار ثواب ہے۔ ثواب ہی نہیں بلکہ جہاد اور جہاد بھی کیسا کہ جہاد اکبر۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ کافر نجس ہیں نجس العین نہیں۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ کتے نجس العین ہیں۔ جب نجس کو ہلاک کرنا جہاد ہے تو نجس العین کو مارنا یقیناً جہاد سے بھی کچھ افضل ہے۔ یہی خیالات تھے جس کی وجہ سے میں کتوں کا جانی دشمن ہو گیا۔ جہاں پاتا مارتا، اور جہاں دیکھتا کم سے کم دو تین لاتیں تو ضرور رسید کر دیتا۔ البتہ بعض کتے بڑے زبر دست اور خوفناک ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں چوں کہ اپنی جان کی حفاظت فرض ہے اس لئے ذرا احتیاط کو کام میں لاتا۔ کبھی کچلے سے کبھی کسی اور طرح ان کو ٹھکانے لگاتا۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری محنت مشکور ہوئی اور میری اس سرگرمی کی یہ داد ملی کہ پبلک نے مجھے’’غازی‘‘ کے بجائے ’’نواب کتے مار خاں‘‘ کا خطاب دیا۔ ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین۔جو جو مشکلات اور مقابلے مجھے اس جہاد میں پیش آئے ان کو میں نے اپنی ڈائری سے لے کر ایک جگہ جمع کیا اور اس کا نام ’’فتوح الکلاب‘‘ رکھا۔نوشتہ بماند سیہ بر سفیدنویسندہ را نیست فردا امیدامید ہے کہ قارئین کرام ان حالات کو پڑھ کر فائدہ اٹھائیں گے۔ اگر میری اس تحریر نے بعض اصحاب کے دل میں کتوں سے نفرت پیدا کر دی اور میری طرح کتوں کو مارنے میں ہر مشکل کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو گئے تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت ٹھکانے لگی۔نصیحت کسے سود مند آیدشکہ گفتار سعدی پسند آیدشوالسلام علی من تبع الہدیٰخاکسار نواب کتے مار خاںنوٹ اس کے بعد کے چند صفحات غائب ہیں۔کتا پیٹھ میں مکان ملا۔ سامنے ہی ایک نواب صاحب رہتے تھے۔ ان کا بڑا کارخانہ تھا۔ میری شومی قسمت (یا خوش قسمتی سے) ایک بڑا زبردست کتا بھی ان کے ہاں پلا ہوا تھا۔ جب دیکھو دروازے کے باہر بیٹھا ہے اور ہر آنے جانے والے پر بھونکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مارنا مجھ پر فرض ہو گیا۔ آمنے سامنے کے مقابلے کی تو ہمت نہ پڑی۔ ہاں یہ ترکیب اختیار کی کہ جب ادھر سے گزرتا کوئی نہ کوئی چیز اس کے کھانے کو ڈال دیتا۔ اس کو بھی کھانے کا چسکا پڑ گیا اور چند دنوں میں مجھ سے کسی قدر مانوس ہو گیا۔ آخر ایک دن دہی میں کچھ لے دے کر اس کو جہنم واصل کر دیا۔نواب صاحب کو خبر ہوئی۔ وہ میرے خطاب اور حالات سے واقف تھے۔ مگر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے میرا کچھ بگاڑ نہ سکتے تھے۔ اس لئے خون کے گھونٹ پی کر خاموش ہو گئے۔ چلو گئی گزری بات ہوئی۔ایک روز میں باہر گیا ہوا تھا۔ کوئی دس گیارہ بجے جو واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دروازے کے سامنے کتوں کا جمگھٹا ہے اور میونسپلٹی کا چپراسی ایک ٹوکری بغل میں مارے کتوں کو گوشت پھینک رہا تھا۔ مجھے بہت برا معلوم ہوا۔ بچتا بچاتا چپراسی صاحب کے پاس تک پہنچا اور کہا، ’’بد معاش یہ تونے کیا گڑ بڑ مچائی ہے؟ کیا اپنے باوا کی فاتحہ کا کھانا تقسیم کرنے کو میرا ہی دروازہ ملا۔ اب یہاں سے جاتا ہے یا نہیں یا پھر اور طرح خبر لوں۔‘‘ چپراسی ناک بھوں چڑھا کر بولا، ’’اجی جاؤ جاؤ۔ ہم سرکاری حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔ حکم ہوا ہے کہ روز دس سیر گوشت اس جگہ کتوں کو ڈالا جائے۔ سرکاری سڑک ہے، ایساہی برا معلوم ہوتا ہے تو جا کر ہمارے نام کی نالش کر دو۔‘‘گوشت کی بو پا کر ادھر ادھر سے کتے ٹوٹ پڑے اور تھوڑی دیر میں ہزاروں کا مجمع ہو گیا۔ راستہ بند، گھر میں جاؤں تو کس طرح جاؤں۔ اتنی ہمت نہ ہوتی تھی کہ ایسی بڑی فوج کو چیر پھاڑ کر گزر جاؤں۔ آخر سوچتے سوچتے یہ سوجھی کہ اس بارے میں کسی وکیل سے مشورہ کرنا چاہئے۔ ان دنوں لالہ شیو سیوان مل کی وکالت زوروں پر تھی۔ سیدھا ان کے پاس پہنچا۔ تمام واقعہ بیان کیا اور کہا کہ نواب نجول خاں پر میرے جانب سے استغاثہ دائر کر دیجئے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ کارروائی نواب صاحب ہی نے کی ہے۔ میں نے کہا کہ ’’ہو نہ ہو یہ انہی کی کارستانی ہے۔ وہ میونسپل کمیٹی کے ممبر ہیں۔ انہوں نے ہی اس نا معقول چپراسی کو اس لنگر کی تقسیم پر مقرر کیا ہے۔‘‘ وکیل صاحب نے کہا کہ، ’’ قیاسات پر کسی کو ملزم نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘ میں نے کہا کہ، ’’تو میونسپل کمیٹی کو ملزم بنا دیجئے۔‘‘ انہوں نے اس سے بھی انکار کیا تو میں نے جل کر کہا، ’’تو اچھا کتوں ہی کو ملزمین بنائیے۔‘‘وکیل صاحب معاف فرمائیے میں کتوں کو ملزمین بنا کر اپنی وقعت کھونا نہیں چاہتا۔میں معلوم ہوتا ہے کہ کتوں میں آپ کی بڑی قدر و منزلت ہے اور ان میں اپنی وقعت کم ہونے سے آپ گھبراتے ہیں۔ یا شاید پہلے جنم میں آپ کتے تھے کہ اپنے سابقہ رشتے داروں اور دوستوں کے خلا ف کوئی کارروائی کرنا نہیں چاہتے۔وکیل صاحب نے بہت نیلے پیلے ہوکر میری طرف دیکھا مگر سمجھ گئے کہ ہاتھ پاؤں سے مجھ پر ور آنا مشکل ہے۔ اس لئے کہنے لگے، ’’جناب میں نے عدم تعاون کے اصول پر کاربند ہو کر وکالت ترک کر دی ہے، آپ کسی دوسرے وکیل کی تلاش کیجئے۔‘‘یہاں سے کورا جواب مل گیا تو میں نے دل میں کہا کہ چلو خود ہی قانون دیکھ ڈالو۔ انہیں وکیل صاحب میں کیا سرخاب کا پر ہے کہ یہی قانون سمجھتے ہیں، دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ راستے میں آتے آتے تعزیرات ہند اور ضابطہ فوجداری خرید لیا۔ گھر پر پہنچ کر تمام رات میں ان دونوں کتابوں کو دیکھ ڈالا۔ معاملہ کوئی پیچیدہ نہ تھا۔ قانون صاف تھا۔ کتوں کے افعال سے جرم مزاحمت بے جا پورا بنتا تھا۔ چنانچہ دفعہ (339) تعزیرات ہند کے تحت استغاثہ مرتب کیا۔ ترتیب استغاثہ کے وقت یہ دقت پیش آئی کہ آخر ملزمین کن کو بنایا جائے۔ قانون پر غور کرنے کے بعد میں نے استغاثہ کا عنوان اس طرح قائم کیا۔نواب اسد یار خاں المخاطب بہ کتے یار خاں بہادر۔۔۔ مستغیثبنام جمیع سگان خوردو کلاں بازاری (فاتر العقل) بولایت میونسپل کمیٹی۔۔۔ ملزمینعلت مزاحمت بے جا زیر دفعہ (339) تعزیرات ہنداستغاثہ میں تمام واقعات مذکورہ بالا کی صراحت کر کے استدعا کی گئی تھی کہ چوں کہ فاتر العقل ہونے کی وجہ سے کتے مستثنیات عامہ کی دفعہ 84 میں داخل ہو جاتے ہیں، اس لئے بعد تحقیقات میونسپل کمیٹی کو سزا قانونی صادر فرمائی جائے۔استغاثہ مرتب کر کے دوسرے دن ڈپٹی کلب علی خاں صاحب مجسٹریٹ ضلع کے اجلاس پر داخل کر دیا۔ میرے حلفی بیان کے بعد عدالت سے میونسپل کمیٹی کے نام سمن جاری ہوئے اور تاریخ پیشی پر مقدمہ پیش ہوا۔ میونسپل کمیٹی کی جانب سے مسٹر کولی بیرسٹر ایٹ لا کونسل تھے۔ اپنی طرف سے میں نے خود پیروی کی۔سب سے پہلے کونسل ملزمین نے یہ بحث چھیڑی کہ میونسپل کمیٹی کتوں کی ولیہ نہیں ہو سکتی۔ دوسرے یہ کہ کتوں کے فاتر العقل ہونے کی کوئی شہادت یا ثبوت نہیں ہے۔ مجسٹریٹ صاحب نے میری طرف دیکھا۔ میں ان مباحث کے لئے پہلے ہی سے تیار تھا۔ میں نے بحث کی کہ’’میرے فاضل دوست نے اپنی بحث کی ابتدا ہی غلط کی ہے کہ پہلے ولایت کا مسئلہ چھیڑا ہے اور بعد میں کتوں کے فاتر العقل ہونے کا ثبوت طلب کیا ہے۔ چاہئے یہ تھا کہ پہلے کتوں کے فاتر العقل ہونے پر بحث کی جاتی۔ اگر وہ فاتر العقل قرار پاتے تو اس صورت میں ولایت کی بحث کی جاتی۔ بہر حال پہلے میں اپنے فاضل دوست سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ انہیں کتوں کے فاتر العقل تسلیم کرنے میں کیوں تامل ہے۔‘‘مسٹر کولی میں بغیر ثبوت کے کسی چیز کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ڈپٹی صاحب میرے خیال میں بعض کتے اپنے مالکوں سے زیادہ ہوشیار اور سمجھ دار ہوتے ہیں۔مسٹر کولی جناب والا صحیح ارشاد فرماتے ہیں۔ خود میرا کتا ٹو بی ایسا ہی ہے۔میں ممکن ہے کہ مسٹر کولی کا کتا خود ان سے زیادہ ہوشیار اور سمجھ دار ہو۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ کتے فاتر العقل نہیں ہوتے بلکہ اگر منطقی نتیجہ نکل سکتا ہے تو یہ نکل سکتا ہے کہ مسٹر کولی کتوں سے بھی زیادہ فاترا لعقل ہیں۔مسٹر کولی جناب والا میں ان الفاظ کو برداشت نہیں کر سکتا۔نوٹ یہ کچھ عجب اتفاق ہے کہ ہمارے نواب صاحب کو مکان ملا تو کتا پیٹھ میں۔ مد مقابل ملے تو نجول خاں، بیرسٹر ملے تو مسٹر کولی، ڈپتی صاحب ملے تو کلب علی خاں، وکیل صاحب ملے تو شیو سیوان مل۔ غرض کتوں کے تلازمے سے کہیں نجات نہیں ملی ہے۔ واقعی۔ ’اتفاقات ہیں زمانے کے۔‘ (یہ عبارت حاشیہ میں ہے)میں حضور اس مسئلے کا صغریٰ اور کبریٰ خود مسٹر کولی نے قائم کیا ہے۔ میں نے تو صرف اس کی بنا پر نتیجے کا اظہار کیا ہے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ مسٹر کولی کتوں سے زیادہ بے وقوف ہیں۔ انہوں نے خود اپنی عقل کامعیار ظاہر کیا۔ تعجب ہے کہ اسی کے دہرانے کو یہ اپنی توہین خیال فرماتے ہیں۔ڈپٹی صاحب اچھا اب آپ اپنی بحث کی طرف رجوع کیجئے۔میں جناب والا کسی کے عاقل یا فاتر العقل ہونے کا اندازہ اس کے افعال سے لگایا جاتا ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ کتے بازاروں میں کھڑے ہڈیاں چباتے ہیں اور ان کو اپنے اس فعل پر شرم تک نہیں آتی تو ان کو فاتر العقل کہتے ہیں۔ کون امر مانع ہو سکتا ہے۔ کیونکہ خود ان کے افعال ان کے فاتر العقل ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔مسٹر کولی میرے خیال میں ان کا اس طرح ہڈیاں چبانا ان کے فاتر العقل ہونے کا ثبوت قطعی نہیں ہے۔میں اگر میرے فاضل دوست سڑک پر کھڑے ہو کر ہڈیاں چبانے لگیں اور کوئی ان کو فاتر العقل نہ کہے تو میں کتوں کو بھی فاتر العقل کے زمرے سے نکال دینے پر بالکل تیار ہوں۔مسٹر کولی میں معزز عدالت کو توجہ دلاتا ہوں کہ مستغیث نے جو الفاظ میری نسبت استعمال کئے ہیں وہ میری توہین کی حد تک پہنچتے ہیں۔میں جناب والا میرے فاضل دوست نے ثبوت طلب کیا۔ میں نے منطق سے اس کا جواب دیا۔ اگر یہ میرے اعتراض کا عملی ثبوت دینے پر تیار نہیں ہے تو یہ کتوں کو فاتر العقل تسلیم کر لیں۔ چلو چھٹی ہوئی نہ مجھ کو حجت نہ ان کو شکایت۔ڈپٹی صاحب بہتر ہوگا کہ اگر آپ اس قسم کی تمثیلات سے پرہیز کریں۔میں جناب والا۔ قانون ہمیشہ تمثیلات سے اچھی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اگر تمثیلات سے جناب کو ایسی ہی نفرت ہے تو مناسب ہوگا کہ قانون سے ان کو خارج کر دینے کی تحریک فرما دی جائے۔ڈپٹی صاحب آپ خیال رکھیں کہ یہ گفتگو آپ کہاں کر رہے ہیں ممکن ہے کہ آپ کے الفاظ کی بنا پر تحقیر عدالت کا مقدمہ آپ پر قائم ہو جائے۔میں حضور والا کی تقریر سے خود میری حجت کی تائید ہوتی ہے۔ عدالت کوئی عاقل شے نہیں ہے جس کی تحقیر ہو سکے۔ اگر خدا نخواستہ تحقیر ہوگی تو جناب والا کی اور اگر مقدمہ قائم ہوگا تو اس عنوان سے قائم ہو سکے گا کہ، ’’عدالت (فاتر العقل) بولایت صاحب مجسٹریٹ بہادر مستغیث۔‘‘ڈپٹی صاحب آپ اپنی بحث میں احتیاط کیجئے اور آگے چلیے۔میں دوسری بحث فریق مخالف کی جانب سے کی جاتی ہے کہ میونسپل کمیٹی کتوں کی ولیہ نہیں ہے۔ اس کا جواب میں میونسپل کمیٹی کے ضابطے سے دینا چاہتا ہوں۔ میرے فاضل دوست اس امر کو تسلیم کریں گے کہ تمام رعایا کے مکانات سے میونسپل کمیٹی ٹیکس وصول کرتی ہے۔ لیکن جو جائداد خود میونسپل کمیٹی کی ہے اس پر ہاؤس ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ اصول یہ ہوا کہ میونسپل کمیٹی کی جو چیز ہے وہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ اب اس کا عکس ملاحظہ کیجئے۔ رعایا کے کتوں پر میونسپل کمیٹی ٹیکس لیتی ہے۔ لیکن بازاری کتوں پر کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ جنگلی کتے میونسپل کمیٹی کی ملک ہیں اورچوں کہ (جیسا کہ میں اوپر ظاہر کر آیا ہوں) یہ کتے فاتر العقل اس لئے ہیں کہ ان کا مالک و قابض یعنی میونسپل کمیٹی ان کی ولیہ جائز ہے۔مسٹر کولی میں معزز عدالت سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرے دوست کے ان فقروں سے میرے موکلین کی توہین ہوتی ہے۔میں میں اپنے فاضل دوست سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے مؤکل کتے ہیں یا میونسپل کمیٹی؟ اس صراحت کی مجھے اس لئے ضرورت ہوئی ہے کہ مستغیث کی نگاہ میں بہ حیثیت ملزمین اس مقدمے میں کتوں اور میونسپل کمیٹی میں کوئی فرق نہیں ہے۔مسٹر کولی میں معزز عدالت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ یہ دوسرے پہلو سے میرے موکلین پر حملہ کیا جا رہا ہے۔میں میرے فاضل دوست نے میرے سوال کا جواب عنایت نہیں فرمایا۔مسٹر کولی میں میونسپل کمیٹی کی طرف سے پیروی کر رہا ہوں۔میں جب مسٹر کولی کتوں کی طرف سے کونسل نہیں ہیں اور یہ میونسپل کمیٹی کو کتوں کی ولیہ بھی تسلیم نہیں کرتے تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ کون سے قاعدے کی رو سے کتوں کی طرف سے بحث کر رہے ہیں۔ ان کو چاہئے تھا کہ اپنے موکل کا نام زمرہ ملزمین سے خارج کرانے کی کوشش کرتے۔ بقیہ ملزمین اور ہم خود آپس میں بھگت لیتے۔ بحالت موجودہ میونسپل کمیٹی نے جو ایک بیرسٹر مقرر کر کے رعایا کا روپیہ برباد کیا ہے اس کے متعلق میں عدالت سے نہایت ادب کے ساتھ درخواست کروں گا کہ مجھے رعایا کی جانب سے میونسپل کمیٹی پر خیانت مجرمانہ زیر دفعہ 409 تعزیرات ہند مقدمہ دائر کرنے کی اجازت دی جائے۔ڈپٹی صاحب آپ صرف اپنے مقدمے سے سروکار رکھیئے۔مسٹر کولی میں مستغیث کے ان مباحث قانونی کا کوئی جواب دے کر عدالت کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا۔ معزز عدالت خود ان کی وقعت پر غور کرکے فیصلہ صادر فرما سکتی ہے۔ مجھے صرف ایک قانونی بحث اور کرنی رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ تعزیرات ہند میں صرف افعال اشخاص سے بحث کی گئی ہے۔ جانوروں کے افعال اس میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اگر میں تسلیم کر لوں کہ چند کتے مستغیث کے دروازے کے سامنے جمع ہوئے اور بفرض محال ان کی سدراہ بھی ہوئے توان کے افعال ان کو مزاحمت بے جا کے جرم کے تحت میں نہیں لا سکتے۔میں اپنے فاضل دوست کی اس بحث کی قدر کرتا ہوں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے تعزیرات ہند کو نہایت سرسری نظر سے دیکھا ہے۔ میں ان سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا میونسپل کمیٹی قانوناً ’’شخص‘‘ کی تعریف میں داخل ہو سکتی ہے؟مسٹر کولی ہو سکتی ہے۔میں یہ کیوں کر؟مسٹر کولی کیونکہ چند میونسپل کمشنروں کے مجموعے کا نام میونسپل کمیٹی ہے۔ اس وجہ سے لفظ ’’شخص‘‘ کا اطلاق قانوناً اس پر ہو سکتا ہے۔میں میرے فاضل دوست نے خود اپنے اس جواب سے اپنے اعتراض کو رفع کر دیا۔ جب چند جانداروں کے مجموعے پر لفظ شخص کا اطلاق ہو سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ کتوں کا مجموعہ لفظ ’’شخص‘‘ کے تحت میں کیوں نہ آئے اور جب کتوں کا مجموعہ لفظ ’’شخص‘‘ سے قانوناً تعبیر کیا جاسکتا ہے تو جو افعال اس کتوں کے مجموعہ سے سرزد ہوئے ہیں۔ ان سے تعزیرات ہند کے جرائم متعلق ہو جائیں گے۔مسٹر کولی میں اس بحث کے سمجھنے سے قاصر ہوں۔میں مجھے آپ کے دماغ سے یہی امید تھی۔ کیا اچھا ہوتا اگر آپ اپنے کتے کو بھی ساتھ لے آتے۔ شاید دونوں مل کر اس بحث کو سمجھ لیتے۔ڈپٹی صاحب اچھا آگے چلئے۔میں اب رہی یہ بحث کہ کتوں کا سد راہ ہونا مزاحمت بے جا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ تو میں اس کے متعلق نہایت زور سے کہوں گا کہ ہو سکتا ہے اور ضرور ہو سکتا ہے۔ میں اپنی اس بحث کو ایک تمثیل سے بہت اچھی طرح ذہن نشین کرا سکتا ہوں۔ فرض کیجئے، ہمارے بیرسٹر صاحب اپنے مکان میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور ہمارے ڈپٹی صاحب ان کے سد راہ ہوتے ہیں اور اسی کش مکش میں ہمارے فاضل دوست کے دو چار ٹھوکریں بھی پڑ جاتی ہیں میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا مزاحمت بے جا جرم مکمل ہو گیا؟مسٹر کولی جرم ضرور ہوا مگر جن الفاظ میں وہ بیان کیا گیا ہے وہ عدالت کی توجہ کا محتاج ہے۔میں اب بیرسٹر صاحب کے دروازے پر ڈپٹی صاحب کو کتا سمجھ لیجئے۔ اگر یہ اس کش مکش میں ہمارے فاضل دوست پر بھونکیں اور کاٹ کھائیں تو کیا جرم مزاحمت بے جا مکمل نہیں ہوا۔مسٹر کولی مفروضات کو قانون میں دخل نہیں ہے۔میں یہ قانونی مفروضات ہیں۔ میں اوپر ثابت کر آیا ہوں کہ کتے لفظ ’’شخص‘‘ کی تعریف میں قانوناً آ سکتے ہیں اور آپ یہ تسلیم کریں گے کہ ڈپٹی صاحب بھی قانوناً شخص ہیں، اس لئے اپنی بحث میں اگر میں نے یہ فرض کر لیا کہ ڈپٹی صاحب کتے ہیں تو کیا ظلم کیا۔ بہر حال جب ڈپٹی صاحب کا سد راہ ہونا جو مسٹر کولی سے کم تعلیم یافتہ ہیں، مزاحمت بے جا ہے تو کتوں کا سد راہ ہونا بدرجۂ اولی مزاحمت بے جا ہے کیونکہ ہمارے فاضل دوست تسلیم کرتے ہیں کہ بعض کتے ان سے زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں۔خدا خدا کر کے مکان ملا۔ مکان گو چھوٹا تھا لیکن میری ضرورت کو کافی ہے گھر میں تھا کون۔ میں، میری بلیاں اور ایک کھوسٹ ماما۔ دیوار بیچ مولوی قطمیر صاحب کا مکان تھا۔ بے چارے بڑے بھلے آدمی معلوم ہوتے تھے۔ مجھ سے آ کر ملے۔ حالات دریافت کئے۔ باتوں باتوں میں کتا پیٹھ کے مکان چھوڑنے کا بھی ذکر چھیڑ دیا۔ میں نے تمام واقعات بیان کئے۔ کہنے لگے، ’’بھئی معاف کرنا میرے ہاں بھی ایک کتا پلا ہوا ہے مگر بہت غریب ہے اورمیں کوشش کروں گا کہ وہ آپ کو آ کر تکلیف نہ دے۔‘‘ کتے کا ذکر سنتے ہی جو وقعت مولوی صاحب کی میرے دل میں قائم ہوئی تھی وہ یک قلم جاتی رہی۔ اس کے بعد میں نے ان سے کچھ اکھڑی اکھڑی باتیں کیں۔ وہ کسی قدر کشیدہ خاطر ہو کر میرے پاس سے اٹھ گئے۔چار روز تک کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ پانچویں روز میں صحن میں بیٹھا تھا کہ ایک نہایت بد صورت کالا کتا پاخانے کی مہری سے نکل کر بہت اطمینان سے اندر آیا اور اس طرح ٹہلنے لگا گویا اس کے باوا کا مکان ہے۔ میں نے بہت دھت دھت کی لیکن اس نے یہ بھی نہ جانا کہ کون کتا بھونک رہا ہے۔ میں نے فہیمن کو پکارا وہ باورچی خانے سے لکڑی لے کر دوڑی۔ جب کہیں جا کر یہ بلا دفع ہوئی۔ اب مشکل یہ آپڑی کہ پے خانہ کے برابر والی دیوار مولوی قطمیر صاحب کی تھی اور مہری بھی انہیں کی تھی۔ مہری بند کس طرح کرتا۔ آخر سوچتے سوچتے ایک ترکیب سوجھی۔ کوئی دو من کا پتھر لے کر عین مہری کے اوپر منڈیر کے بالکل کنارے پر رکھا، پتھر میں رسی باندھی اورمہری کے سامنے بیچوں بیچ ایک لمبی سی کیل گاڑ کر اور رسی کو تان کر اس کا دوسرا سرا کیل میں باندھ دیا۔ اور دل میں کہا، ’’لو بیٹا اب تم آنا کھوپڑی چورم چور نہ ہو جائے تو میرا نام نواب کتے مار خاں نہیں۔‘‘وہ دن تو خیر سے گزر گیا۔ دوسرے دن صبح ہی کو مولوی صاحب کے کتے نے میرے مکان میں مٹرگشت کا ارادہ کیا۔ میں صحن میں بیٹھا ان کی کار گزاری دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے نہایت اطمینان سے مہری میں سر ڈالا۔ سر رسی سے ٹکرایا۔ ادھر انہوں نے زور کیا، ادھر پتھر آہستہ آہستہ منڈیر سے کھسکنا شروع ہوا۔ ادھر یہ مہری سے باہر نکلے ادھر پتھر اوپر سے آیا۔ قیں کر کے وہیں ٹھنڈے ہو گئے۔ مولوی صاحب کی بیوی نے جو آواز سنی تو غل مچایا، ’’ہائے ہائے مولوی صاحب اس حرام زادے نواب نے میرے کتے کو مار ڈالا۔ خدا اس کو غارت کرے۔‘‘ایک لمحہ نہ گزرا تھا کہ مولوی صاحب میرے مکان میں آئے اور بغیر سلام علیک کہے سیدھے مہری کے پاس پہنچے۔ کتے کو پتھر کے نیچے سے نکالا اور اسی طرح چپ چاپ واپس چلے گئے۔ مجھے خیال تھاکہ کچھ گل خپ ہو جائے گی لیکن ان کے اس تحمل پر مجھے تعجب ہوا۔ میں نے دل میں کہا کہ چلو مفت میں ایک کتا تو کم ہوا۔ رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت۔ اگر معلوم ہوتا کہ مولوی صاحب کا سکون طوفا ن کی آمد کا پیش خیمہ ہے تو میں پہلے ہی سے گھر چھوڑ کر بھاگ جاتا۔اس کے بعد فہیمن کا مولوی صاحب کے ہاں آنا جانا بڑھا۔ جب دیکھو باورچی خانہ خالی پڑا ہے۔ میں نے کہا، ’’بی فہیمن اس طرح راہ و رسم بڑھانا اچھا نہیں، تمہیں میرے پاس رہنا ہے تو سیدھی طرح رہو ورنہ خدا حافظ۔ تمہیں نوکری کی کمی نہیں اورمجھے نوکروں کا توڑا نہیں۔‘‘ بی فہیمن نے کہا، ’’میاں! میں آپ کا کام کاج کر کے دو گھڑی رحمت کی ماں کے پاس جا بیٹھتی ہوں۔ اگر آپ کو یہ ناگوار ہے تو آج سے نہ جایا کروں گی۔‘‘یہ سن کر میں چپ ہو رہا۔دوسرے دن شام کو بی فہیمن ہانپتی کانپتی میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں، ’’میاں مجھے بخار چڑھ رہا ہے۔ آپ اجازت دیں تو گھر ہو آؤں۔ کھانا پکا دیا ہے، آپ کو تکلیف تو ہوگی اگر آپ کھانا کھا کر سامان باورچی خانے میں رکھ دیں تو انشاء اللہ میں کل صبح آ کر دیکھ لوں گی۔‘‘میں نے کہا، ’’اس میں کیا ہرج ہے۔ جاؤ گھر ہو آؤ۔ مگر کل صبح ضرور آجانا۔ ورنہ مجھے تکلیف ہوگی۔‘‘ وہ دعائیں دیتی ہوئی چلی گئی اور میں نے باہر کے دروازے کی کنڈی لگا لی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کم بخت بھی مولوی صاحب سے مل گئی تھی۔ بخار کا بہانہ تھا۔ مجھے صرف تنہا مکان میں چھوڑ جانا مقصود تھا۔خیر تھوڑی دیر بعد میں نے اٹھ کر وضو کیا۔ عشا کی نماز پڑھی۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ باہر سیتل پاٹی ڈالی۔ باورچی خانے میں سے کھانا نکال کر لایا، منہ میں نوالا رکھنا ہی چاہتا تھا کہ پے خانہ کی مہری کی طرف سے قیاؤں کی آواز آئی اور ساتھ ہی ایک کالا جگادری کتا صحن میں نازل ہوا۔ میں نے ہش ہش کی، مارنے کو لکڑی اٹھائی، وہ مہری کی طرف بھاگا لیکن مہری تک نہ پہنچا تھا کہ ایک دوسرا کتا اسی راستے سے اندر داخل ہوا۔ اس کے بعد تو کتوں کی قطار لگ گئی۔ ایک دو تین، چار، دس بارہ، بیس پچیس، خدا جھوٹ نہ بلوائے تو کم از کم تیس پینتیس کتے اندر گھس آئے۔ تمام صحن بھر گیا۔ ایک کو ماروں، دو کو ماروں، آخر کن کن کو ماروں، کتوں نے بھی دیکھا کہ ہماری تعداد زیادہ ہے اور یہ شخص کچھ سہما ہوا سا ہے، اور بھی شیر ہو گئے، پہلے مجھ پر غرائے، ادھر کھانے کی بو ناک میں گئی۔ ایک دم دستر خوان پر ہلا بول دیا۔ ان کی یورش سے میں پریشان ہو کر بھاگا۔ کتے سمجھے گھر میں یہی ایک غیر جنس ہے، مجھ پر پل پڑے۔ مجھ کو اس وقت اور کچھ نہ سدھرا۔ سامنے پنکھا لٹکا ہوا تھا۔ جست کر کے او پر چڑھ گیا۔ ایک کتے نے چڑھتے چڑھتے پاؤں پر منہ بھی مارا مگر میں جوں تو ں کسی نہ کسی طرح پنکھے پر جا ہی بیٹھا۔اب کیا تھا حرام زادوں کو خوان یغما مل گیا۔ نہایت فراغت سے دستر خوان صاف کر دیا اور ہم خون کے گھونٹ پیتے پنکھے پر بیٹھے رہے۔ کھانے اور لڑنے سے فراغت پا کر بد معاشوں نے مکان کے کونے کونے پر قبضہ کر لیا۔ کوئی کہیں جا بیٹھا کوئی کہیں، دو زبر دست کالے کتے عین میرے پنکھے کے نیچے بآرام تمام آ کر قالین پر دراز ہو گئے۔جب ذرا امن ہوا تو میں نے سوچنا شروع کیا کہ اس واردات کی بنا پر ان کتوں اور مولوی قطمیر صاحب پر کیا کیا جرائم عائد ہو سکتے ہیں۔ تعزیرات ہند پاس نہ تھی لیکن اس کی دفعات دھیان میں تھیں۔ آخر رائے یہ قرار پائی کہ نقب زنی، بلوہ اور ڈاکے کے جرائم کی اعانت کا الزام مولوی صاحب پر قائم کیا جا سکتا ہے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے استغاثہ کا مضمون بھی دل میں سوچ لیا۔ غرض اسی فکر میں رات کے کوئی بارہ بج گئے۔ نیند کا غلبہ ہوا۔ آنکھیں بند ہونے لگیں اور آخر کار آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ بلوے نقب اور ڈاکے کا مقدمہ ڈپٹی صاحب کے اجلاس پر پیش ہوا۔ کتوں کو حبس دوام بعبور دریائے شور کی سزا ہوئی اور مولوی صاحب پر اعانت کا جرم ثابت قرار پا کر چھ سال کی قید با مشقت کی سزا سنا دی گئی اور یہ بھی حکم دیا گیا کہ جو جرمانہ وصول ہو، اس میں سے حسب دفعہ 545 ضابطہ فوج داری نو ہزار روپیہ مستغیث کو دیا جائے۔ یہ سزا مرافعہ میں بحال رہی اور مجھ کو جرمانہ وصول شدہ میں سے نو ہزار روپئے نقد حسب ضابطہ وصول ہو گئے۔اب کیا تھا۔ یار دوستوں نے مبارک باد کی بوچھار کر دی اور تقاضا شروع کیا کہ اس خوشی میں جلسہ کیا جائے۔ خاص باغ میں جلسہ مقرر ہوا، ارباب نشاط بلائے گئے۔ ساون کا مہینہ ہے، امرائی میں جھولا پڑا ہے۔ یہ خاکسار جھولے میں بیٹھا ہے۔ ننھی جان اور بی حفیظن کھڑی جھولا جھولا رہی ہیں؟ ملا ر گائے جا رہے ہیں کہ ایک دفعہ ہی جھولے کی رسی ٹوٹی اور میں دھم سے نیچے آ رہا اور گرنے کے ساتھ ہی دو کتوں نے چیخ ماری۔ آنکھ کھل گئی۔ دیکھتا ہوں تو پنکھے کے نیچے پڑا ہوا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ پنکھے سے جو گرا توسیدھا کتوں کے اوپر۔ ان کو اس بلائے ناگہانی کے نازل ہونے کا کیا خیال تھا۔ ہڈیا ں پسلیاں چورا ہو گئیں۔ لنگڑاتے اور چیختے ہوئے بھاگے۔ دوسرے کتے بھی گھبرائے۔ان دونوں زخمیوں نے پہلے دروازے کا رخ کیا۔ اس کو بند پایا تو سیدھے پے خانے کی مہری کی طرف گئے اور زور کر کے پار ہو گئے جانوروں میں بھیڑ یا چال تو ہوتی ہی ہے سب کے سب یکے بعد دیگرے مہری سے نکل کر مولوی صاحب کے گھر میں داخل ہو گئے۔ جب یہ آفت دفع ہوئی تو میں بھی اٹھا۔ کولہےمیں بہت چوٹ آئی تھی۔ مشکل سے کھسکتا کھسکاتا دروازے کے پاس آیا کنڈی کھولی۔ باہر نکلا اور تمام رات سڑک پر بیٹھ کر گزار دی۔ صبح بی فہیمن سرخرو چونڈ ا آئیں۔ میں نے ان کو بہت برا بھلا کہا اور حساب کر دیا۔ کیونکہ مثل مشہور ہے دشمن کا دوست اپنا دشمن۔ آج میرے ساتھ یہ سلوک کیا کل خدا جانے گلا گھٹوا دیں۔نو بجے گھر میں آیا، کپڑے بدلے، بستہ بغل میں مار ہوٹل گیا۔ وہاں کھانا کھایا۔ پھر تعزیرات کی دفعات کو دیکھا۔ کوتوالی میں رپورٹ کی لیکن انہوں نے مقدمے کا چالان کرنے سے انکار کیا۔ اس لئے خود استغاثہ لکھا اور دس بجے عدالت ضلع میں جا کر داخل کر دیا۔ تیس نفر کتوں اور مولوی قطمیر صاحب کو ملزمین بنایا۔ استغاثہ میں نقب زنی بوقت شب حسب دفعہ 453 ڈاکہ زیر دفعہ 395 اور صلاح مہلک کے ساتھ بلوہ زیر دفعہ 148 تعزیرات ہند کے جرائم قائم کئے۔ کچھ دے دلا کر اسی روز سمن جاری کروائے۔ سر رشتہ میں یہ اعتراض ہوا کہ کتوں پر سمن کی تعمیل کیوں کر کی جائے۔ ان کو فاتر العقل تو کہا نہیں جا سکتا کیونکہ میونسپل کمیٹی والے مقدمے میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ کتے فاتر العقل نہیں ہیں۔ اس لئے بالآخر بہت کچھ حجت کے بعد یہ طے پایا کہ کتوں کو نابالغ اور زیر پرورش مولوی قطمیر صاحب قرار دے کر مولوی صاحب پر جملہ سمنوں کی تعمیل کرا دی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ گواس قانونی مسئلے کے سلجھانے میں میرے کئی روپے صرف ہوئے لیکن مجھے اس کی پروا نہ تھی کیونکہ مجھے یقین تھا کہ آخر میں مولوی صاحب کے جرمانے میں سے مجھے نو ہزار روپے ضرور ملیں گے۔مولوی صاحب کو یقین نہ تھا کہ معاملہ عدالت تک کھنچے گا۔ اس لئے سمن پہنچنے کے بعد بہت گھبرائے اور مجھ سے آ کر معذرت کرنے لگے کہ میرا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں ہے۔ ساری کارستانی میرے چھوکرے کی ہے۔ میں نے کہا کہ مولوی صاحب! میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ کی وجہ سے مجھے ایک اور ملزم کا نام معلوم ہو گیا۔ کل اس کو بھی زمرہ ملزمین میں شریک کئے دیتا ہوں۔ اب رہا معاملہ کا تصفیہ، تو وہ یوں ہو سکتا ہے کہ آپ محلے کے تمام کتوں کو مار ڈالیں اور چونکہ عدالت سے آپ کے حق میں چھ سال کی قید اور دس ہزار روپے جرمانہ کی سزا صادر ہونے والی ہے، اس لئے میں اتنا کر سکتا ہوں کہ اگر آپ نو ہزار روپے مجھے بطور ہر جانہ ادا کریں تو میں مقدمے سے دست برداری کر لوں گا۔ اگر آپ اس پر راضی نہیں ہیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا کی کوئی قوت آپ کو جیل خانے جانے سے نہیں روک سکتی۔میری یہ قانونی بحث سن کر مولوی صاحب حیران ہو گئے۔ بہت جز بز ہوئے۔ منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑاتے ہوئے اٹھے۔ میں نے کہا مولوی صاحب سنبھل کے بات کیجئے گا۔ آپ کا یہ بڑبڑانا آپ کو ایک اور جرم کا مرتکب کئے دیتا ہے۔ اگر آئندہ آپ کے ہونٹ ہلے تو ابھی جا کر استغاثہ میں ازالہ حیثیت عرفی کی دفعہ 500 تعزیرات اور بڑھا آتا ہوں۔ اس تقریر سے مولوی صاحب کے رہے سہے حواس گم ہو گئے اور دروازے سے نکل کر نوک دم بھاگ گئے۔مجھے توقع تھی کہ شاید مولوی صاحب پھر مصالحت کا دروازہ کھٹکھٹائیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی وکیل کے پھندے میں جا پھنسے اور آپ ان لوگوں کے اصول سے واقف ہیں کہ مردہ دوزخ میں جائے یا بہشت میں ان کو اپنے حلوے مانڈے سے کام۔بہر حال تاریخ پیشی آ گئی اور میں کتابوں کا پشتارہ بغل میں مار ڈپٹی صاحب کے اجلاس پر پہنچ گیا۔ پہلی پیشی میرے ہی مقدمے کی تھی۔ اندر جا کر کیا دیکھتا ہوں کہ تیس چالیس کتے ایک رسی میں بندھے کھڑے ہیں۔ رسی کا سرا مولوی قطمیر صاحب کے ہاتھ میں ہے اور مولوی صاحب مسٹر کولی بیرسٹریٹ لا سے کھڑے باتیں کر رہے ہیں۔ ڈپٹی صاحب اس وقت تک اجلاس پر تشریف نہیں لائے تھے۔ میں نے کولی صاحب سے کہا، ’’کیا آپ ان تمام ملزمین کے وکیل ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ہاں!‘‘ میں نے کہا، ’’کیا مناسب نہ ہوگا کہ ان ناپاک ہستیوں کو عدالت کے کمرے سے خارج کر دیا جائے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’نہیں ملزمین کے مواجہہ میں تحقیقات ہوگی۔‘‘ یہ بالکل قانون کے مطابق جواب تھا لیکن چوں کہ مجھے یقین تھا کہ ان ملزین کو عنقریب حسب دوام بعبور دریائے شور کی سزا ہونے والی ہے اس لئے دل پر جبر کر کے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔دس بجتے ہی ڈپٹی صاحب اجلاس پر آئے۔ کتوں کا ہجوم دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا، ’’اچھا ہمارے نواب صاحب کا کوئی سنگین مقدمہ ہے۔‘‘ میں نے نہایت ادب سے سلام کر کے عرض کی، ’’حضور والا خود ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس غریب پر کیا کیا ظلم توڑے گئے ہیں۔ اس سے زیادہ میں کچھ عرض کر کے عدالت کی رائے پر اثر ڈالنا خلاف قانون و انصاف سمجھتا ہوں۔‘‘ مسٹر کولی نے کھڑے ہو کر کہا، ’’مائی لارڈ! اس مقدمے کا دار و مدار محض قانونی مباحث پر ہے کیونکہ اس مقدمے کے مستغیث اور ہمارے قدیم دوست مولوی اسد یار خاں صاحب نے نہ تو گواہوں کی کوئی فہرست استغاثہ کے ساتھ منسلک کی ہے اور نہ کوئی شہادت طلب کی گئی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ بھی محض اپنے بیان اور قانونی مباحث پر اس مقدمے کا تصفیہ کرانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ صورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرے فاضل دوست کو بھی اس سے انکار نہ ہوگا تو میں نہایت ادب کے ساتھ عرض کروں گا کہ پہلے مقدمے کے قانونی پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے تاکہ اگریہ ثابت ہو کہ ملزمین کے افعال سے کوئی جرم نہیں بنتا تو مقدمہ کو شہادت لسانی لئے بغیر ختم کر دیا جائے۔‘‘ڈپٹی صاحب نے میری طرف دیکھا۔ میں نے عرض کی، ’’مجھے مسٹر کولی رائے سے پورا اتفاق ہے اور میں عدالت کو باور کراتا ہوں کہ اگر اپنی تمام عمر میں میرے فاضل دوست نے کبھی کوئی سمجھ کی بات کہی ہے تو آج اور اس وقت کہی ہے۔‘‘مسٹر کولی مائی لارڈ میں امید کرتا ہوں کہ میرے فاضل دوست کو اس طرح میری قانونی واقفیت کی نکتہ چینی کرنے سے روک دیا جائےگا۔میں میں دیکھتا ہوں کہ میرے فاضل دوست کا دماغ اپنی کمزوری کی طرف رفتہ رفتہ رجوع کر رہا ہے۔ اگر وہ اپنے آپ کو میری تعریف کے لائق نہیں سمجھتے تو میں نہایت خوشی سے اپنے وہ الفاظ، جو ان کی تعریف میں میں نے استعمال کئے تھے واپس لیتا ہوں اور اگر وہ لفظ ’’فاضل دوست‘‘ میں لفظ ’’فاضل‘‘ کو اپنی توہین خیال فرماتے ہیں تو میں آئندہ سے بجائے فاضل دوست کے بے وقوف دوست استعمال کرنے کو تیار ہوں۔ڈپٹی صاحب مجھے افسوس ہے کہ آپ نے عذر گناہ بد تر از گناہ کی صورت اختیار کی ہے۔ لیکن چوں کہ مسٹر کولی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مستغیث نے جو کچھ کہا ہے وہ کسی بری نیت سے نہیں کہا۔ اس لئے وہ اس ریمارک سے در گزر کر کے اصل مقدمے کی طرف رجوع کریں گے۔مسٹر کولی مائی لارڈ۔ میں حضور کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرے موکلین میں سے اکثر کو نابالغ ظاہر کیا گیا ہے اور میں یقین دلاتا ہوں کہ ان میں سے اکثر جوان ہیں اور اکثر بال بچے والے ہیں۔میں جناب والا یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ کتے کی عمر بارہ سال سے زیادہ نہیں ہوتی اور اس کو میرے فاضل دوست بھی تسلیم کریں گے کہ بارہ سال والی ہر ہستی قانوناً نابالغ سمجھی گئی ہے۔ ایسی حالت میں میرا کتوں کو نابالغ قرار دینا کسی طرح غلط نہیں ہے۔ علاوہ ازیں مستغیث دوسرے کے بلوغ یا عدم بلوغ کا پتہ نہیں چلا سکتا۔ اگر مسٹر کولی اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر اپنے بعض موکلین کو بالغ بیان کرتے ہیں تو وہ ابھی ٹٹول ٹٹول کر بالغوں اور نابالغوں کو علاحدہ علاحدہ کر دیں۔ میں استغاثہ میں صحت کر دوں گا۔ اس سے استغاثہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ البتہ وکیل صاحب کی عقل کا ضرور اندازہ ہوتا ہے۔ڈپٹی صاحب مسٹر کولی آپ اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔مسٹر کولی مناسب ہے کہ استغاثہ کو بحالت موجودہ چلنے دیا جائے۔میں یہ دوسری سمجھ کی بات ہے جو آج مسٹر کولی کے منہ سے نکلی ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ انہوں نے کہا اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دماغ اور ان کے اکثر موکلین کی دماغوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے جس کا وہ سابق میں اعتراف بھی کر چکے ہیں۔مسٹر کولی جناب والا! میں اس قسم کے ریمارک کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کہ اشتعال طبع کی صورت پیدا ہو جائے اور عدالت کوئی دوسری کارروائی کرنے پر مجبور ہو۔ڈپٹی صاحب میں مستغیث کو ہدایت کرتا ہوں کہ اگر آئندہ انہوں نے کوئی ایسی بات زبان سے نکالی جو تحقیر عدالت کی حدتک پہنچتی ہو تو میں حسب دفعہ 480 ضابطہ فوجداری کارروائی شروع کروں گا۔مسٹر کولی میرے موکلین پر تعزیرات ہند کا جو پہلا جرم قائم کیا گیا ہے وہ نقب زنی ہے۔ میری ابتدائی حجت یہ ہے کہ کتے نقب زنی کا ارتکاب نہیں کر سکتے۔میں یہ حجت بلا دلیل ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ کتے نقب زنی انسان سے زیادہ سہولت سے کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے سخت پنجے اور ناخن ہیں، اور انسان کے نہیں ہیں۔ ابھی ان کتوں اور مسٹر کولی کو سامنے کی دیوار کھودنے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ دیکھیں پہلے کتے سوراخ ڈالتے ہیں یا مسٹر کولی۔ دوسرے یہ بحث بھی الٹی کی گئی ہے اور کیوں نہ ہو مسٹر کولی کے دماغ سے ایسی ہی بحث کی توقع کی جا سکتی ہے۔ استغاثہ میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ کتوں نے دیوار میں سوراخ کیا۔ میں عرض کرتا ہوں کہ دیوار میں مہری پہلے سے موجود تھی اور یہ انسان کی آمد و رفت کے لئے نہیں بنائی گئی تھی بلکہ پاخانے کے پانی کے اخراج کے لئے تھی۔ دفعہ 445 ضمن (2) کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’کسی ایسے راستے سے داخل ہونا جو آمد و رفت کے لئے نہ بنایا گیا ہو۔‘‘ اس لئے کتوں کا مہری میں سے آنا حسب دفعہ محولہ یقیناً نقب زنی میں داخل ہے۔مسٹر کولی اس کا ثبوت؟میں جناب والا اب میں ثبوت میں کچھ عرض کروں گا تو پھر اعتراض کیا جائے گا۔ اگر اجازت ہو تو جواب دوں۔ڈپٹی صاحب اچھا اجازت ہے۔میں میں کہتا ہوں کہ یہ مہری آمد و رفت کے لئے نہیں بنائی گئی تھی۔ مسٹر کولی اس کا ثبوت طلب کرتے ہیں۔ میں صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ کیا کبھی اس مہری سے مولوی قطمیر صاحب میرے مکان میں تشریف لائے تھے یا کبھی ان کے بال بچے اس راستہ سے آتے جاتے رہتے ہیں۔ اگر ان لوگوں میں سے کوئی نہیں آتا تو ماننا پڑے گا کہ یہ مہری انسان کی آمد و رفت کے لئے نہیں بنائی گئی اور اگر یہ لوگ اس مہری میں سے آمد و رفت رکھتے ہیں تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ لوگ انسان نہیں جانور ہیں۔مسٹر کولی مائی لارڈ! کیا ان الفاظ سے میرے موکل کی توہین نہیں ہوتی؟میں میں نے پہلے ہی حضور والا سے اجازت لے لی ہے۔ اب اگر مسٹر کولی ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو خود عدالت پر دائر کریں۔ میں ان کی طرف سے شہادت دینے کو تیار ہوں۔ ڈپٹی صاحب میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہو ں کہ یہ مہری کتنی بڑی ہے۔مسٹر کولی اس کے لئے مناسب ہے کہ معائنہ موقع کر لیا جائے۔میں میرے خیال میں بھی اس کی ضرورت ہے اور میں عدالت کو باور کراتا ہوں کہ یہ مہری اتنی بڑی ہے کہ کتا تو کتا، اگر جناب والا معائنہ موقع کے وقت مسٹر کولی کی گردن پکڑ کر مہری میں ٹھونس دیں، تو یہ بھی باوجود اس تن و توش کے پھنس پھنسا کراس مہری سے پار ہو جائیں گے۔معلوم ہوتا ہے کہ اس فقرہ پر مسٹر کولی کو بہت تاؤ آ گیا۔ انہوں نے نہایت زور سے میز پر مکا مارا اور کچھ کہنا چاہتے تھے کہ اجلاس کا رنگ ہی بدل گیا۔ وجہ یہ ہوئی کی مسٹر کولی نے مکا مارتے وقت یہ خیال نہیں کیا کہ میرا ہاتھ میز پر رکھا ہے۔ بجائے میز پر پڑنے کے مکا میرے ہاتھ پر پڑا۔ بھلا میرے ہاتھ کی تحقیر عدالت ہوتی اور میں خاموش رہتا۔ چوں کہ میں جانتا تھا کہ مجھے اشتعال طبع ہو جانے کے وجوہ پیدا ہو گئے ہیں اور میں دفعہ 300 کے مستثنیٰ چہارم میں آ گیا ہوں۔ اس لئے میں نے میز پر کی دوات اٹھائی (خدا جھوٹ نہ بلوائے کوئی تین پاؤ کی تھی) اور اٹھاتے ہی مسٹر کولی کی طرف پوری طاقت سے پھینکی۔ وہ اس وقت سر جھکائے ہوئے کچھ کہہ رہے تھے کہ دوات عین ان کی چندیا پر پڑی۔ چندیا تھی صاف اور چکنی، وہاں سے چٹخی پھسلنے کی وجہ سے۔ اس کا رخ اجلاس کی طرف ہو گیا اور سیدھی ڈپٹی صاحب کی کنپٹی پر بیٹھی اور چشم زدن میں مسٹر کولی کا سر اور ڈپٹی صاحب کا منہ ہم رنگ ہو گئے۔ادھر تو اجلاس کے چپراسی اپنی اپنی کمر سے پٹکے کھول کر ڈپٹی صاحب کا منہ پوچھنے کو دوڑے، ادھر مسٹر کولی نے جست کی تو میز کے اوپر وہاں سے کود کر مجھ پر گرنا چاہتے تھے۔ مگر میں پہلے ہی سے اس حملے کے لئے تیار تھا۔ پیترا کاٹ گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ بجائے مجھ پر گرنے کے کرسی پر گرے اور کرسی سمیت اپنے بعض موکلین پر آ پڑے۔ جو کتے دبے، انہوں نے غل مچایا۔ ان کا ساتھ ان کے یاروں نے دیا۔ غرض ایک قیامت برپا ہو گئی۔ باہر کے لوگ دوڑے ہوئے آئے کہ دیکھیں اجلاس پر کیا مصیبت نازل ہوئی۔ ادھر سے یہ کتوں کا غول گھبرا کر نکلا۔ راستے میں مڈ بھیڑ ہو گئی۔ دو چار تماشائی تو جھپٹ میں آ کر چت ہو گئے۔ بعضوں کی ٹانگیں کتوں نے لیں غرض۔۔۔نوٹ یہاں سے پھر صفحات غائب ہیں۔اس کے بعد جو صفحہ شروع ہوا ہے اس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نواب صاحب پر تحقیر عدالت کی کارروائی زیر دفعہ 480 ضابطہ فوجداری شروع کر کے ان کا جواب لیا جا رہا ہے۔ سوال کا جو ابتدائی حصہ ہے وہ گم شدہ صفحہ میں ہوگا)لہٰذاآپ وجہ ظاہر کیجئے کہ کیوں آپ کے خلاف حسب دفعہ 480 ضابطہ فوجداری کارروائی کر کے تجویز مناسب نہ کی جائے۔28 مئی؁شرح دستخط کلب علی خاں۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ۔یہ کاغذ مجھے دیا گیا۔ میں نے پڑھا۔ ذرا مسکرایا اور ڈپٹی صاحب سے عرض کی کہ کیا میں جواب زبانی دوں یا تحریری۔ڈپٹی صاحب تحریری۔ میں کیا میں اپنے جواب میں صاف صاف ظاہر کر دوں کہ جو لوگ قانون سے واقف نہیں، ان کا کرسی عدالت پر بیٹھنا خود تحقیر عدالت ہے اور جن کا وجود خود تحقیر عدالت ہو وہ دوسرے کسی شخص پر تحقیر عدالت کا مقدمہ قائم کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ڈپٹی صاحب آپ کوزبانی گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کا جو جی چاہے وہ اپنے بیان تحریر میں لکھ دیجئے۔ میں نہایت اطمینان سے وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔ بستہ کھول کر قانونی کتابیں نکالیں، دفعات متعلقہ کو دیکھا اور حسب ذیل مسودہ تیار کیا۔باجلاس عالی جناب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بہادرکارروائی زیر دفعہ 480 ضابطہ فوجداری سرکار ذریعہ کنپٹی ڈپٹی کلب علی خاں صاحب۔۔۔ مستغیثنواب اسد یار خاں بہادر مستغاث علیہبعرض۔۔۔ عالی۔۔۔ می رساندگزارش ہے کہ میرا اس کاروائی میں جواب طلب کیاجاتا ہے لیکن جواب دینے سے پہلے میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ جو طریقہ عدالت نے اختیار کیاہے وہ سراسر خلاف قانون ہے۔ تحقیر عدالت ضرور ہوئی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کس کی تحقیر عدالت ہوئی۔ مجھے اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ عدالت کے کمرے میں جو داخل ہوتا ہے وہ خود عدالت کا جزو ہوجاتا ہے۔ اگر اس کی یا اس کے کسی حصے کی تحقیر کی جائے تو وہ عدالت کی عین تحقیر ہے۔ اس لحاظ سے سب سے پہلے تحقیر عدالت میرے ہاتھ کی مسٹر کولی نے کی۔ اس کے بعد میں نے نہیں بلکہ دوات نے مسٹر کولی کے سر کی تحقیر عدالت کی اور اس کے بعد مسٹر کولی کے سر نے (اس کو میں آخر میں ثابت کروں گا) ڈپٹی صاحب کی کنپٹی کی تحقیر عدالت کی۔ مسٹر کولی نے کتوں کی تحقیر عدالت اور کتوں نے تماشائیوں کی تحقیر عدالت کی۔ ایسی صورت میں تمام اجزا کو ترک کر کے صرف کنپٹی کی تحقیر عدالت کے متعلق کارروائی کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ مقدمے میں تجزی قانوناً و اصولاً ناجائز ہے۔(2) میں نے مسٹر کولی کو دوات ماری اور اس کا مجھے قانوناً حق تھا۔ ملاحظہ ہو دفعہ 300 مستثنیٰ چہارم، جس میں محکوم ہے کہ اشتعال طبع کی صورت میں قتل عمد بھی جرم نہیں ہوتا۔مجھے حق حاصل تھا کہ اجلاس ہی پر مسٹر کولی کا گلا گھونٹ دیتا لیکن میں نے صرف دوات کھینچ مارنے پر اکتفا کیا۔ یہ مسٹر کولی کا قصور تھا کہ وہ اس وقت گردن جھکائے کھڑے تھے اور دوات ان کے سر پر لگی۔ اگر معمولی چندیا ہوتی تو اتنی بھاری دوات سے صرف اتنا ہوتا کہ کھوپڑی ٹوٹ جاتی اور کارروائی وہیں ختم ہو جاتی۔ یہ کبھی باور نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ خاص کرپ کے کارخانے کی بنی ہوئی کھوپڑی ہے۔ یا گھر میں دباغت ہوتے ہوتے اتنی مضبوط ہو گئی ہے کہ اس پر سے ایسی بھاری دوات بھی چٹخ جائے گی۔ اگر دوات چٹخی تو وہ مسٹر کولی کی کھوپڑی کی مضبوطی کا قصور ہے نہ کہ میرا، کیوں کہ یہ سوء اتفاق کی صورت ہے اور میں دفعہ80 تعزیرات کی رو سے بری الذمہ ہوں۔(3) اب رہا یہ امر کہ دوات نے بجائے سیدھا جانے کے اجلاس کی طرف رخ کیوں بدلا تو اس کا جواب بہت صاف ہے۔ مسٹر کولی کے سر کی چکنائی اس تبدیل رخ کا باعث ہوئی۔ ان کی کھوپڑی نہ ایسی چکنی ہوتی اور نہ دوات اجلاس کی طرف جاتی۔ نہ ڈپٹی کلب علی خان کی کنپٹی پر لگتی اور نہ کنپٹی کی تحقیر عدالت کا مقدمہ ہوتا۔ ان حالات میں میں نہایت ادب سے عرض کروں گا کہ اگر جناب والا کو اپنی کنپٹی کے متعلق تحقیر عدالت کا مقدمہ قائم کرنا ہے تو مسٹر کولی کی کھوپڑی کی چکنائی پر قائم کیا جائے۔ کیونکہ یہ چکنائی اس تحقیر کا باعث ہوئی۔ مجھ پر مقدمہ قائم کرنا اور صرف میرا جواب لینا قانوناً صحیح نہیں ہے۔(4) یہاں میں ڈپٹی صاحب کو ایک قانونی صلاح دینا مناسب سمجھتا ہوں گو میں جانتا ہوں کہ ان کے دماغ میں ایسے نازک قانونی نکتے کا اترنا دشوار ہے مگر بقول شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ۔اگر بینم کہ نابینا و چاہ استو گر خاموش بنشینم گناہ استمیں ڈپٹی صاحب کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ قانوناً مسٹر کولی کی کھوپڑی یا اس کی چکنائی پر بھی مقدمہ قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر افعال قدرت کی وجہ سے کسی کو کوئی نقصان پہنچ جائے تو وہ مجرم نہیں ہوتا۔ مثلاً ابھی اس مکان کی چھت بیٹھ جائے اور ڈپٹی صاحب دب کر مر جائیں تو نہ کوئی مجرم ہوا، نہ اس کے متعلق کوئی مقدمہ قائم ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ قدرت کا فعل ہے اور اس پر کسی کو اختیار حاصل نہیں ہے۔ بجنسہ یہی حالت مسٹر کولی کی کھوپڑی کی ہے۔ ان کے چند یا قدرت نے صاف کر دی ہے (ممکن ہے گھر والوں نے بھی اس صفائی میں کچھ حصہ لیا ہو) اس لئے اگر اس کی وجہ سے دوات کا رخ بدلا تو یہ صورت افعال قدرت میں داخل ہے اور مسٹر کولی جواب دہ قرار نہیں دیے جا سکتے۔ البتہ اگر یہ ثابت کیا جا سکے کہ آج خاص اسی غرض سے مسٹر کولی سر منڈوا کر اور تیل مل کر آئے تھے تو یقیناً وہ اپنی کھوپڑی کی چکنائی کے ذمے دار ہوں گے۔لہذا استدعا ہے کہکارروائی ختم اور مثل داخل دفتر کی جائے اور چوں کہ اپنی درخواست کے فقرہ 4 میں میں نے مسٹر کولی کی جانب سے وکالت کی ہے اور ان کو ایک سنگین مقدمے سے بچا لیا ہے، اس لئے مجھے ان سے معقول محنتانہ دلایا جائے۔نوٹ مناسب ہوگا کہ عدالت مسٹر کولی کو ہدایت کر دے کہ وہ آئندہ جب اجلاس پر آئیں تو اپنے سر پر اچھی طرح سنیڈ پیپر (ریگمال) مل کر آیا کریں تاکہ اس قسم کے واقعات کا ہمیشہ کے لئے سد باب ہو جائے۔ واجب تھا عرض کیا گیا۔دستخط۔ نواب اسد یار خاںڈپٹی صاحب جواب پڑ کر بہت گھبرائے لیکن بے حیائی تیرا ہی آسرا ہے۔ کچھ سمجھے سمجھائے تو نہیں چار سطر کی ایک تجویز ٹھونک ماری کہ ملزم کا بیان دیکھا گیا۔ ہماری رائے میں جو جواب ملزم نے دیا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ (نوٹ اس کے آگے کے صفحات غائب ہیں)غالب بیسنی روٹی کی تعریف کریں تو کریں۔ میں تو یہی کہوں گا کہ لعنت ہے بیسن اور بیسنی روٹی پر۔ میرا ہی دل خوب جانتا ہے کہ اس بیسنی روٹی نے مجھے کیا کیا ناک چنے چبوائے ہیں۔ میں نے تو عہد کر لیا ہے کہ زہر کھاؤں گا مگر بیسنی روٹی کے پاس نہ جاؤں گا۔ایک روز کا ذکر ہے کہ ابر آیا ہوا تھا، کچھ پھوہار بھی پڑ رہی تھی۔ ہماری ماما جی باورچی خانے سے مسکراتی ہوئی آئیں اور کہا، ’’میاں کہو تو آج بیسنی روٹی پکالوں۔‘‘ میں نے کہا، ’’اچھا پکا لو۔ موسمی چیز ہے مگر خدا کے لئے کچی نہ رکھنا۔ ایسا نہ ہو کہ بد ہضمی ہو جائے۔‘‘ بڑی بی بولیں، ’’نوج میاں ایسی فال زبان منہ سے نہ نکالئے۔ دور پار میں کوئی آپ کی دشمن ہوں کہ کچی روٹیا کھلا کر دشمنوں کو بیمار ڈالوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر جو وہ باورچی خانے میں گھسیں تو اللہ کی بندی نے ایک بجا دیا۔ میں کھانے والا نو بجے کا۔ انتظار کرتے کرتے بیزار ہو گیا لیکن روٹیاں نہ آنی تھیں نہ آئیں۔ آنتوں نے ڈیڑھ لاکھ قل ہو اللہ کا ختم پورا کیا۔ جب کہیں خدا خدا کر کے بڑی بی کی شکل نظر آئی۔مجھے تاؤ تو بہت تھا مگربیسنی روٹیوں کو دیکھ کر ٹھنڈا پڑ گیا۔ ایسی پتلی پتلی اور سرخ سرخ تھیں کہ دل لوٹ گیا۔ کھانے پر جو ڈٹا تو اناڑی کی بندوق بھر لی سچ ہے۔ چنا اور غلام منہ لگ کر نہیں چھوٹتا۔ اتنا کھایا، اتنا کھایا کہ حلق تک آگیا۔ جب دسترخوان صاف ہو گیا تو خدا خدا کر کے اٹھا، پانی پیا اور ذرا لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں لگی پیاس۔ اٹھ کر پانی پیا، پھر پیا۔نوٹ اس ڈائری کے صفحات اگر کسی اور صاحب کے ہاتھ لگے ہوں تو براہ کرم رسالہ نمائش کو بھیج کر ممنون فرمائیں (ایڈیٹر) لیکن پیاس تھی کہ کسی طرح نہ بجھتی تھی۔ پیٹ پھول کر نقارہ ہو گیا۔ اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ باہر نکل کر کیا دیکھتا ہوں کہ ڈپٹی کلب علی صاحب کھڑے ہیں۔ یہ اکثر میرے غریب خانے پر تشریف لانے لگے تھے۔ جب کوئی پیچیدہ قانونی مسئلہ پیش آتا تو حل کرنے اکثر میرے پاس آ جاتے تھے۔ خیر ان کو ساتھ لےدیوان خانے میں جا بیٹھا۔ سامنے میز پر ’’رسالہ نمائش‘‘ رکھا تھا۔ وہ انہوں نے اٹھا لیا اور اس کے دیکھنے میں محو ہو گئے۔ میرے پیٹ کی بری حالت تھی۔ بس پھٹنے کے قریب تھا کسی طرح چین نہ آتا تھا۔ آرام کرسی پر میں نے بہت بہت پہلو بدلے۔ ٹانگیں کرسی کی دستیوں پر پھیلا کر سہولت راہ پیدا کی۔ توند کو کچھ سہلایا۔ کچھ دبایا مگر باوجود اس قدر کوششوں کے ایک بھی امر باعث ندامت صادر نہ ہوا۔ اسی جدو جہد میں آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑے غدار شہر میں جا رہا ہوں۔ سڑکیں صاف ستھری ہیں مگر پتلی پتلی۔ مکان خوش نما اور خوبصورت ہیں مگر نیچے نیچے۔ بازاروں میں خوب چہل پہل ہے۔ ہر شخص اپنے اپنے کام میں مصروف ہے۔ بعض بے فکر ے کوٹ پتلون پہنے، سگریٹ منہ میں دبائے لکڑی ہلاتے مٹر گشت کر رہے ہیں۔ بیچوں بیچ شہر میں ایک عالی شان عمارت ہے۔ طالب علم بستے بغل میں دبائے اس میں چلے جارہے ہیں۔ مجھے بھی شوق ہوا۔ دل میں کہا چلو، چلتے چلتے یہاں کا طریقہ تعلیم بھی دیکھ لیں۔ اندر گیا کیا دیکھتا ہوں کہ سیکڑوں طالب علم اکڑوں بیٹھے کتابیں اگلے بنچوں پر رکھے پروفیسر صاحب کا لکچر سن رہے ہیں۔ اب جو میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان سب کی شکلیں انسانوں کی بہ نسبت کتوں سے زیادہ ملتی جلتی ہیں۔پروفیسر صاحب کی ہیئت کذائی دیکھ کر مجھے ہنسی آگئی۔ اگر کوئی جاندار ان کے ہم شباہت ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے تو وہ صرف خارشی لینڈی کتا ہے۔ ان کی مختصر ناک پر بڑے تالوں اور سیاہ کمانیوں کی فیشن ایبل عینک عجب بہار دے رہی تھی۔ سیاہ کوٹ پتلون زیب تن تھا۔ پشت کی طرف پتلون کا ابھار ظاہر کر رہا تھا کہ زبر دستی کسی چیز کو موڑ کر اندر دبا دیا گیا ہے۔ کوٹ کے اوپر سیاہ گون اور سر پر پھندنے دار چوکونی ٹوپی تھی۔ وہ اس وقت علم ارتقا پر لکچر دے رہے تھے۔جس وقت میں داخل ہوا تو وہ فرما رہے تھے، ’’جو ہستی فطرت کے اصولوں کو تبدیل کر سکے اسی کو حق حاصل ہے کہ اشرف المخلوقات کا لقب اختیار کرے۔ فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر جاندار مار پڑنے پر چیخے چلائے اور آنسو بہائے۔ سوائے کتوں کے آپ ایک جاندار بھی ایسا نہیں بتا سکتے جو اس اصول مقررہ پر کار بند نہ ہوتا ہو۔ کتے ہی وہ قابل قدر ہستی ہیں جو اس اصول فطرت کے تابع نہیں ہیں۔ وہ مار کھانے پر چیخنے اور رونے کے بجائے واہ واہ واہ کے نعرے لگاتے ہیں اور اس طرح تعریفوں سے اپنے مارنے والے کا دل بڑھاتے ہیں۔ فطرت کا دوسرا مسلمہ اصول یہ ہے کہ زمانے کی ٹھوکریں بڑے بڑے ٹیڑھوں کو سیدھا کر دیتی ہیں۔ لیکن تجربہ بتا رہا ہے کہ بارہ برس تک ہماری دم زمین میں دبائی گئی پھر بھی وہ ٹیڑھی ٹیڑھی رہی۔ اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ کتے ہی اشرف المخلوقات کا لقب اختیار کرنے کے مستحق ہیں۔ چنانچہ بعض عاقل اور سمجھ دار انسانوں نے اپنے سے کتوں کو افضل مانا اور تسلیم کیا ہے (یہاں سے کچھ حصہ غائب ہے۔)’’حلم کتوں کا شیوہ ہے اور متانت ان کا شعار۔‘‘کتوں کی اتنی تعریفیں سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے چیخ کر کہا، ’’ابے کتے کے بچے! اپنے منہ میاں مٹھو! تم کتےتھے، کتے ہو اور ہمیشہ کتے ہی رہو گے۔‘‘ پروفیسر صاحب نے نظر اٹھا کرمیری طرف دیکھا۔ ان کو ایک غیر جنس نظر آیا۔ اپنی ساری متانت بھول گئے۔ کرسی پر سے اچک قلانچیں مارتے میری طرف لپکے۔ ان کے ارادوں کا اندازہ کر کے میں دروازے کی طرف بھاگا۔ میں آگے اور وہ پیچھے۔ دروازہ قریب تھا۔ میں نکل یہ جا وہ جا مگر وہ بھی خالی ہاتھ نہ گئے۔ میرے پائجامے کے پائنچوں کے حد اتصال کا کچھ حصہ اپنے منہ میں لے گئے۔ وہ سمجھے کہ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی۔ میں سمجھا، چلو جان بچی لاکھوں پائے۔ فی الحال صافی نشد، نشد۔ گھر جا کر دوسری ڈلوا لیں گے (اس کے بعد کا کچھ حصہ غائب ہے)بازار میں ٹہل رہا تھا کہ چند کتے پولیس والوں کا لباس پہنے گلے میں پٹے اور زنجیریں ڈالے میری طرف آئے۔ ایک نے جوان کا افسر معلوم ہوتا تھا، اپنا پنجہ میری پیٹھ پر رکھا اور کہا، ’’آپ کو قتل عمل کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’میں نے کسی کو قتل نہیں کیا۔‘‘ اس نے جواب دیا کہ اس وقت جو کچھ آپ بیان کریں گے وہ آپ کے خلاف شہادت میں استعمال کیا جاسکے گا۔‘‘ چونکہ یہ قانونی جملہ تھا اس لئے میں خاموش ہو گیا۔ ایک نے اپنی گردن میں سے پٹہ اور زنجیر کھولی۔ پٹہ میری گردن میں ڈال دیا اور زنجیر افسر کے ہاتھ میں دے دی۔ میں نے چلنے میں ذرا ہچر مچر کی تو اس کے ساتھ والوں نے بھونکنا اور منہ مارنا شروع کیا۔ خلقت کا اژدہام ہو گیا۔ کتوں کا یہ مجمع خلاف قانون دیکھ کر میرے اوسان باختہ ہو گئے۔ ہمت نے جواب دے دیا اور میں کان دبائے ان کتوں کی پولیس کے ساتھ ہو گیا۔پہلے یہ مجھ کو اسٹیشن ہاؤس پرلے گئے، وہاں سے ایک دفتر مثلوں کا نکالا اور چار کانسٹبلوں کو مدعیوں اور گواہوں کو بلانے بھیجا۔ دس بجتے ہی مجھ کو عدالت میں لے گئے اور ملزمین کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ اندر جا کر کیا دیکھتا ہوں کہ تمام کمرہ کتوں سے بھرا ہوا ہے۔ تل رکھنے کو جگہ نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ میری گرفتار کی خبر نے یہ مجمع کثیر جمع کر دیا تھا۔ اجلاس پر ایک بڑا زبر دست بل ڈاگ بالوں دار ٹوپی (وگ) پہنے ناک کی پھننگ پر عینک رکھے سرخ گون زیب تک کئے بیٹھا ہے۔ سامنے ایک لمبی میز پر دونوں جانب وکلا کی قطار ہے۔ یہ رنگ دیکھ کر میری آنکھوں میں ڈپٹی کلب علی کاں کے اجلاس کا نقشہ پھر گیا۔ گو اس مجسٹریٹ کی شکل بالکل تو ان سے ملتی نہ تھی لیکن دونوں میں شباہت ضرور تھی۔ مجسٹریٹ صاحب نے بہت غرا کر کہا، ’’کیا ملزم حاضر ہے؟‘‘پیرو کار سرکار اٹھے۔ کیا کہوں عین مسٹر کولی معلوم ہوتے تھے۔ اگر فرق ہوگا تو بس انیس بیس کا ہوگا۔ انہوں نے پہلے اپنی طرف دیکھا پھر اجلاس کی طرف دیکھا۔ عینک ٹھیک کی، گون کی ایک پٹی کو انگلی پر لپیٹا گردن جھکائی۔ پھر اٹھائی پھر جھکائی اور کہا کہپیرو کار سرکار جناب والا ملزم حاضر ہے اس پر وارنٹ کی تعمیل باضابطہ بطریق پر ہوئی ہے اور اس کے خلاف جس قدر چالان ہیں وہ بالکل تیار ہیں۔ مدعی بھی حاضر ہیں۔ اور گواہ بھی موجود ہیں۔مجسٹریٹ مسٹر ٹوبی اس وقت کتنے مقدمات ایسے ہیں جن کی تعمیل آج کی جا سکتی ہے۔مسٹر ٹوبی مائی لارڈ۔ یوں تو ملزم کے خلاف ہزار رہا مقدمات ہیں لیکن اس نے اکثر ایسے موقعوں پر اور اس طرح ہمارے عزیز بھائیوں کو ہلاک کیا ہے کہ ان کے متعلق کوئی گواہ ہم کو ہم دست نہ ہو سکا۔ لیکن پھر بھی اس وقت ڈیڑھ سو مقدمات ایسے تیارہیں جن میں مکمل شہادت پولیس کو فراہم ہو چکی ہے اور انہیں تحقیقات میں جناب والا کے اجلاس پر کرانا چاہتا ہوں۔مجسٹریٹ نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ’’تم ان مقدمات میں خود پیروی کروگے یا کوئی وکیل مقرر کرنا چاہتے ہو۔‘‘میں جناب والا میں اپنے مقدمات میں خود پیروی کرتا ہوں لیکن میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے۔ میں کس کے قتل کے الزام میں ماخوذ کیا گیا ہوں اور ااپ کو ان مقدمات کی سماعت کا اختیار کیسے حاصل ہوا ہے۔ اگر کسی کتے کو کتے نے مارا ہوتا تو البتہ اس مقدمے کی سماعت اس اجلاس پر ہو سکتی تھی مگر جب کسی مقدمے میں کوئی انسان ملزم قرار دیا گیا ہوتو اس کی سماعت انسانوں ہی کی عدالت میں ہو سکتی ہے۔مسٹر ٹوبی مائی لارڈ ملزم کا استدلال صحیح نہیں ہے۔ میں ملزم کی اس بحث کے باضابطہ نقول داخل عدالت کرتا ہوں، جو اس نے ڈپٹی کلب علی خاں صاحب کے اجلاس پر کی تھی۔ جب انہوں نے بہ حیثیت مستغیث کتوں کو ملزمین قرار دے کر انسان کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا تو کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ وہ مقدمات جن میں کتے مستغیث اور ملزم ہیں کتوں کی عدالت میں کیوں سماعت نہ کئے جائیں۔میں اگر اس بحث کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو مجھ کو یہ عذر ہے کہ چوں کہ ہلاکت انسانوں کی عدالت کے حدود اختیاری میں واقع ہوئی ہے۔ اس لئے ان مقدمات کی سماعت حسب دفعہ (180) ضابطہ فوجداری ہند موجودہ اجلاس پر نہیں ہو سکتی۔مسٹر ٹوبی شاید ملزم کو دفعہ 180 ضابطہ فوجداری ہند کے اس جزو کا خیال ہے جس کی رو سے مقدمات قتل کی تحقیقات صرف اسی عدالت میں ہو سکتی ہے جس کی حدود میں ہلاکت واقع ہوئی ہو لیکن ملزم پر یہاں یہ ظاہر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں ضابطہ فوجداری ہند نہیں بلکہ ضابطہ فوجداری کلاب نافذ ہے۔ اور اس کی جو دفعہ اس کارروائی سے متعلق ہے وہ دفعہ 181 ضمن (1) ضابطہ فوج داری ہند کے مماثل ہے۔ اس میں محکوم ہے کہ مقدمات قتل کی تحقیقات نہ صرف اسی عدالت میں ہو سکتی ہے جہاں ہلاکت واقع ہوئی ہو بلکہ اسی عدالت میں بھی ہو سکتی ہے جہاں ملزم پایا جائے۔میں مگر ضابطہ فوج داری کلاب انسانوں سے متعلق نہیں ہو سکتا۔مسٹر ٹوبی اس کے دو جواب ہیں ایک عقلی دوسرا نقلی۔ جس عدالت میں مقدمے کی تحقیقات کی جائے اس میں وہی قانون استعمال کئے جائیں گے جو وہاں کی مجلس وضع قوانین نے نافذ کئے ہوں۔ میں اوپر ثابت کر آیا ہوں کہ ملزم کے خلاف جو مقدمات ہیں ان کی تحقیقات اسی عدالت میں ہو سکتی ہے۔ اس لئے اسی ملک کے نافذہ قانون ان مقدمات کے انفصال میں استعمال ہوں گے۔ دوسری بحث کے متعلق میں ملزم کے ان استغاثوں کی باضابطہ نقول داخل کرتا ہوں جو اس نے اپنے ملک کی عدالت میں پیش کئے تھے۔ وہاں اس نے کتوں پر تعزیرات ہند کے الزامات لگائے ہیں۔ جب انسان کی عدالت میں کتوں کی تحقیقات تعزیرات ہند کی رو سے ہو سکتی ہے تو میں کوئی وجہ نہیں پاتا کہ کتوں کی عدالت میں انسانوں کی تحقیقات خود کتوں کے قوانین نافذہ کے تحت کیوں نہ کی جائے۔مجسٹریٹ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ملزم اپنے دشمنوں کے ملک میں اپنی خوشی سے کس طرح آ گیا۔مسٹر ٹوبی مائی لارڈ یہ ہمارے ملک کی پولیس کا ایک روشن کارنامہ ہے۔ ان مقدمات کے مفتش کے لئے سب سے اہم اور مشکل کام ملزم کی گرفتاری تھا۔ لیکن ملزم کی ماما کی اعانت اور ہمارے وارنٹ نے جو بیسنی روٹی کی شکل میں نافذ ہوا تھا، اس کو بآسانی ہمارے قبضے میں پہنچا دیا۔یہ سن کر مجھے بہت تاؤ آیا اور میں نے عہد کر لیا کہ اگر بخیر و خوبی اس مخمصے سے نجات پائی تو گھر جا کر بڑھیا کا گلا ہی گھونٹ دوں گا۔ رہی بیسنی روٹی تو وہ آئندہ نہ میں خود کھاؤں گا نہ حتی المقدور دوسرے کو کھانے دوں گا۔ بس سمجھ لو کہ اس وقت تک صرف گیہوں سے دشمنی تھی آج سے چنے سے بھی بیر ہے۔مجسٹریٹ مسٹر ٹوبی آپ اپنا سب سے مضبوط مقدمہ پیش کیجئے تاکہ ملزم پر اگر جرم ثابت قرار پائے تو اس کی تجویز موت کے ساتھ بقیہ کل مقدمات کا خود بخود خاتمہ ہو جائے۔مسٹر ٹوبی مائی لارڈ! میں اس قیمتی مشورے کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور سب سے پہلے مولوی قطمیر صاحب کے کتے کے قتل عمد کا مقدمہ شروع کرتا ہوں۔مسٹر ٹوبی نے مقدمے کے واقعات تفصیل سے بیان کئے اور جس طرح پتھر کے گرنے سے اس کتے کی موت واقع ہوئی تھی اس کی صراحت کرنے کے بعد کہا کہ مائی لارڈ میں اپنی بحث کے آخر میں ثابت کروں گا کہ قتل عمد کے لئے یہ لازم نہیں ہے کہ ملزم خود اپنے ہاتھ سے کسی کی ہلاکت کا باعث ہو۔ بلکہ بعض صورتوں میں ملزم کے ایسے افعال بھی جو بظاہر جرم نہ معلوم ہوتے ہوں، اس کو جرم قتل عمد کے تحت میں لے آتے ہیں۔ اس قدر بحث کے بعد اب میں مقدمے کی شہادت پیش کرتا ہوں۔ اس مقدمے کا پہلا گواہ وہی مفتش ہے جس کی کار گزاری بالآخر اس ملزم کی گرفتاری کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔ گواہ کو آواز دی گئی۔ اس نے گواہوں کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر حلف لیا۔ جس کو میں سمجھ نہ سکا۔ اس لئے میں نے اعتراض کیا کہ حلف اس طرح اور اس طریقے سے ہونا چاہئے جس سے ملزم کو اطمینان ہو جائے کہ گواہ سچ بول رہا ہے۔مجسٹریٹ حلف کا یہ اصول صحیح نہیں ہے۔ چوں کہ عدالت گواہ کے سچے یا جھوٹے ہونے کی تنقید کرتی ہے، اس لئے حلف اسی طرح اور اس طریقے سے لیا جاتا ہے جس سے عدالت مطمئن ہو جائے کہ جو کچھ اس کے سامنے بیان کیاجا رہا ہے وہ قابل اعتبار ہے۔ مفتش نے واقعات مقدمہ بیان کئے اور آخر میں میرے طریقہ گرفتار ی پر روشنی ڈالی۔ اس سے معلوم ہوا کہ میری ماما کتوں کی بڑی شوقین تھی۔ اور ایک کتے سے جو در اصل مفتش مقدمہ تھا اس کو بڑی محبت ہو گئی تھی۔ اس کتے نے رفتہ رفتہ اپنے طرز عمل سے اس بڑھیا پر ثابت کیا کہ اس کو بیسنی روٹی کا بہت شوق ہے۔ چنانچہ چند روز تک وہ بڑھیا چرا چھپا کر اس کتے کو بیسنی روٹی کھلاتی رہی۔ ایک دن اس نے مجھے بھی بیسنی روٹی کھانے پر آمادہ کیا تاکہ بچے ہوئے ٹکڑوں سے اس کتے کا بھی کھانا نکل آئے۔ یہ وہ جال تھا جس میں مجھے پھنسایا گیا اور میں عدم واقفیت کی وجہ سے اس مصیبت میں گرفتار ہو گیا۔مفتش کے ابتدائی بیان کے بعد میں نے اس پر جرح کرنی چاہی تو اس پر مسٹر ٹوبی نے کہا کہ اس عدالت میں کسی گواہ پر جرح کی اجازت نہیں دی جاتی اور نہ ہمارے قانون شہادت میں جرح کی کوئی دفعہ قائم کی گئی ہے۔میں لیکن قانون شہادت ہند کی رو سے کوئی بیان قابل ادخال شہادت نہیں ہو سکتا، جب تک فریق ثانی کو اس پر جرح کا موقع نہ دیا گیا ہو۔مجسٹریٹ جرح اس لئے کی جاتی ہے کہ گواہ کی سچائی کا امتحان ہو سکے۔ جب ایک گواہ حلف لے کر کچھ ظاہر کرے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس بیان کو سچ کیوں نہ سمجھا جائے۔مسٹر ٹوبی مائی لارڈ، ملزم ان لوگوں کے قانون کا حوالہ دے رہا ہے جو حلف لے کر بھی جھوٹ بولنے میں تامل نہیں کرتے اور جو حلف کی وقعت کو نہیں سمجھتے۔ جناب والا کا ارشاد بالکل صحیح ہے۔ یا تو گواہ کو حلف نہ دیا جائے اور اس کی صداقت کا امتحان بذریعہ جرح کیا جائے یا اس کو حلف دیا جائے تو اس کے بیان پر بلا جرح اعتبار کرنا چاہئے۔مجسٹریٹ دوسرے گواہ کو بلایا جائے۔آواز دی گئی اور ایک سفید چادر میں لپٹی ہوئی عورت کٹہرے میں داخل ہوئی۔ میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ میری چہیتی بلی ہے۔ غضب ہے جس کو میں جان کے برابر رکھتا تھا وہی آج میرے خلاف شہادت دینے آ کھڑی ہوئی۔ سچ ہے بلی کی ذات بڑی بے وفا ہوتی ہے۔گواہ نے مسٹر ٹوبی کے سوالات کے جواب میں بہ حلف بیان کیا کہ میں ملزم کے پاس ایک عرصے سے رہتی ہوں۔ ان کے مکان سے ملا ہوا مولوی قطمیر کا مکان ہے۔ ملزم کے مکان کے پیخانے کی مہری، مولوی صاحب کے مکان میں نکلتی ہے۔ تقریباً چھ ماہ کا عرصہ ہوگا کہ۔۔۔ (آگے کے صفحات غائب ہیں جس میں گواہوں کے بیانات، بحث اور فیصلے کا بڑا حصہ ہوگا کیونکہ جو صفحہ اس کے بعد کا ہے وہ فیصلے کے جزو آخر سے شروع ہوتا ہے۔) شہادت پیش شدہ سے مہری کے عین اوپر کی منڈیر پر پتھر کا رکھنا۔ پتھر سے رسی باندھ کر اس کا دوسرا سرا مہری کے سامنے کیل سے لپیٹ دینا، مولوی قطمیر صاحب کے کتے کا مہری میں سے نکلنے کی کوشش کرنا، اس کوشش کرنے میں رسی کا اس سے ٹکرانا اور پتھر کا اوپر سے گر کر اس کو ہلاک کرنا پوری طرح ثابت ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ملزم کے ایسے افعال کا مجموعہ جو فرداً فرداً جرم نہ ہوں اس کو قتل عمد کا مجرم قرار دے سکتا ہے یا نہیں۔ اس بارے میں مسٹر ٹوبی نے نہایت لیاقت سے بحث کی ہے اور عدالت کو ان کی حجت سے پورا اتفاق ہے۔ اگر ملزم جاننے یا باور کرنے کی وجہ رکھتا ہو کہ اس کے افعال سے ہلاکت واقع ہونے کا احتمال ہے یا غالباً اس کا نتیجہ ہلاکت ہے یا وہ افعال حسب طبیعت معہودۂ جاندار ہلاکت کے لئے کافی ہیں تو ملزم کے ایسے افعال اس کو جرم قتل عمد کے تحت میں لے آئیں گے۔ اور جیسا کہ ہم شہادت سے بحث کرتے ہوئے ثابت قرا ر دے چکے ہیں کہ ملزم کو یہ معلوم تھا کہ مولوی قطمیر صاحب کا کتا اس مہری سے آمد و رفت رکھتا ہے۔ اس کا ایسا بڑا پتھر اس طرح منڈیر پر رکھنا اور اس کا سلسلہ رسی سے اس طرح قائم کرنا کہ مہری سے آنے جانے والوں کی ذرا سی ٹھیس سے وہ گر سکے اور بلحاظ اپنی جسامت کے ایک بڑے سے بڑے کتے کے ہلاک کرنے کو کافی ہو تو اس کے افعال اس کی بد نیتی پر دلالت کریں گے۔ اور اس کا قانونی نتیجہ یہی نکلے گا کہ ملزم نے وہ افعال اس نیت سے کئے تھے کہ مولوی قطمیر صاحب کے کتے کی ہلاکت واقع ہو۔ان تمام حالات پر غور کرنے کے بعد میں ملزم پر جرم ثابت قرار دیتا ہوں اور چوں کہ ورثائے مقتول خواہان قصاص ہیں۔لہذا حکم ہوا کہملزم کتے مار خاں کو بپاداش جرم قتل عمد ہلاک کیا جائے اور ایک درجن کتے اس کے پیچھے اس غرض سے چھوڑے جائیں کہ وہ ملزم کو اس وقت تک کاٹیں اور بھنبوڑیں کہ اس کی جان جسم سے نکل جائے۔ ملزم کی تمام جائیداد ضبط کی جائے اور حسب دفعہ 545 ضابطہ فوج داری ورثائے مقتول میں تقسیم کر دی جائے۔نوٹ فیصلے کی فوراً تعمیل کی جائے۔دستخط مسٹر بل ڈاگ سشن جج کتا نگرمیں مگر جناب والا مجھے مرافعے کا حق حاصل ہے اور ابھی اس فیصلے کا نفاذ لوکل گورنمنٹ کی منظوری کا محتاج ہے۔مجسٹریٹ یہاں مرافعے کا نہ کوئی قاعدہ ہے اور نہ لوکل گورنمنٹ کی منظوری کی ضرورت۔ یہ ان ممالک کا دستور ہے جہاں گواہوں کے بیانات پر اعتبار نہ کرنے کی وجہ ہوتی ہے۔ چوں کہ ہماری عدالتوں میں کوئی گواہ حلف لے کر جھوٹ نہیں بولتا اس لئے شہادت سے صرف ایک ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے اور اسی لئے یہاں کوئی عدالت مرافعہ قائم ہی نہیں کی گئی۔ اور نہ لوکل گورنمنٹ کو عدالتی کارروائیوں میں کوئی دخل ہے۔ (پولیس والوں کی طرف دیکھ کر) مجرم کو مقتل میں لے جاؤ۔مجسٹریٹ کا حکم سنتے ہی پولیس والے کشاں کشاں کشاں مجھے ایک بڑے میدان میں لے گئے۔ اس میدان کے چاروں طرف اونچے اونچے کٹہرے تھے۔ تمام شہر اس قتل کا تماشا دیکھنے امنڈ پڑا تھا۔ کٹہرے کے گرد کتوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ تھے۔ جہاں تک نظر جاتی تھی کتے ہی کتے نظر آتے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ میرے جلادوںمیں خود مجسٹریٹ صاحب بھی شریک ہیں۔ میری غیرت کو حرکت ہوئی اور میں نے ٹھان لی کہ مرنا برحق ہے مگر مرتے مرتے دو چار کتوں کو موت کے گھاٹ اتار دوں گا۔ مجھے میدان میں ان جلادوں سے کوئی دس قدم آگے کھڑا کیا گیا۔ ایک کتا میدان میں جھنڈی لے کر آیا۔ جب اس نے دیکھا کہ سب مستعد ہو گئے تو ایک دفعہ ہی اس نے جھنڈی گرائی اور میری موت اور زیست کی دوڑ شروع ہوئی۔میں نے بھی وہ وہ چکر دیے، اور وہ وہ پلٹیاں لیں کہ بہت سے کتوں کی کمریں توڑ دیں۔ جو کوئی قریب آ یا، اس کو دو چار لاتیں رسید کیں۔ کسی کو اٹھا کر دے پٹکا۔ کسی کو گردن دبا کر چھوڑ دیا۔ غرض یہ کہ جتنے کتے تھے وہ تھک کر بیٹھ رہے اور میدان میں صرف مجسٹریٹ صاحب اور میں رہ گئے۔ اب میری بھی ہمت بڑھی اور میں نے للکار کر کہا کہ ’’حرام زادے مجسٹریٹ! اب دیکھ تجھے مجسٹریٹی کا مزا چکھاتا ہوں۔ بڑا کلب علی خاں کا باوا بن کر اجلاس پر بیٹھا تھا۔ آج چھٹی کا دودھ یاد نہ دلایا ہو تو میرا نام کتے مار خاں نہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میں مجسٹریٹ کی طرف جھپٹا، ادھر سے وہ بڑھا۔ ادھر سے میں بڑھا۔ دونوں دست و گریباں ہو گئے۔ میں نے اس کی تھوتھنی پکڑی۔ اس نے میرے منہ پر پنجہ مارا۔ میں نے اس کو نوچا۔ اس نے مجھ کو کاٹا میں نے اس کو گرایا۔ اس نے مجھے دے مارا۔ میرے کپڑوں اور اس کی کھال کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ دونوں لہو میں تر بتر تھے لیکن نہ میں اس کی گرفت چھوڑتا تھا اور نہ وہ پیچھے ہٹتا تھا۔میں نے دیکھا کہ جتنا وقت گزرتا جاتاہے، میرے قوی مضمحل اور میرے ہاتھ پاؤں جواب دیتے جاتے تھے۔ اس خوں خوار کتے نے بھی میری کمزوری کو محسوس کر لیا اور آخری حملے کے لئے اپنی تمام تر قوت صرف کر کے اپنے پنجے میری گرفت سے چھڑ الئے۔ چھڑانے کے ساتھ ہی اس نے میری گردن دبائی۔ میرا سانس رکنے لگا۔ میں نے بڑی نے بڑی مشکل سے ایک چیخ ماری اور چیخ کے ساتھ میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھتا کیا ہوں کہ میں نیچے پڑا ہوں اور کلب علی خاں صاحب میرے سینے پر سوار میرا ٹیٹوا دبا رہے ہیں۔ ان کی داڑھی اور میری مونچھوں کے کچھ اجزامیں تبادلہ ملکیت ہو گیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ عالم خواب میں مجسٹریٹ کے متعلق جو الفاظ میں نے کہے تھے، ان کا مخاطب ڈپٹی صاحب نے اپنے آپ کو سمجھا۔ اس کے بعد جب میں اٹھ کر جھپٹا تو وہ بھی غصہ میں آپے سے باہر ہو کر مجھ سے لپٹ گئے۔ پھر جو کچھ ہوا وہ ہوا۔ اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم دونوں کی حالت اس کا آئینہ تھی۔ میری چیخ سے ڈپٹی صاحب کے چپراسی بھی دالان میں آ گئے اور یہ تماشا دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ ایک نے بڑی مشکل سے ڈپٹی صاحب کو مجھ سے علاحدہ کیا اور وہ یہ بڑ بڑاتے ہوئے اٹھے کہ ’’بازی بازی باریش بابا ہم بازی۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’ڈپٹی صاحب آپ کو یہ کیا وحشت ہو گئی تھی کہ (یہاں سے پھر صفحے غائب ہیں۔)


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.