ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے
Appearance
ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے
لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے
معنی آدم کجا اور صورت آدم کجا
یہ نہاں خانے میں تھا اب تک نہاں خانے میں ہے
خرمن بلبل تو پھونکا عشق آتش رنگ نے
رنگ کو شعلہ بنا کر کون پروانے میں ہے
جلوۂ حسن پرستش گرمئ حسن نیاز
ورنہ کچھ کعبے میں رکھا ہے نہ بت خانے میں ہے
رند خالی ہاتھ بیٹھے ہیں اڑا کر جزو و کل
اب نہ کچھ شیشے میں ہے باقی نہ پیمانے میں ہے
میں یہ کہتا ہوں فنا کو بھی عطا کر زندگی
تو کمال زندگی کہتا ہے مر جانے میں ہے
جس پہ بت خانہ تصدق جس پہ کعبہ بھی نثار
ایک صورت ایسی بھی سنتے ہیں بت خانے میں ہے
کیا بہار نقش پا ہے اے نیاز عاشقی
لطف سر رکھنے میں کیا سر رکھ کے مر جانے میں ہے
بے خودی میں دیکھتا ہوں بے نیازی کی ادا
کیا فنائے زندگی خود حسن بن جانے میں ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |