Jump to content

اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا

From Wikisource
اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
by برج نرائن چکبست
298411اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتابرج نرائن چکبست

اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا

بہار گل میں دیوانوں کا صحرا میں پرا ہوتا
جدھر اٹھتی نظر کوسوں تلک جنگل ہرا ہوتا

مئے گل رنگ لٹتی یوں در مے خانہ وا ہوتا
نہ پینے کی کمی ہوتی نہ ساقی سے گلا ہوتا

ہزاروں جان دیتے ہیں بتوں کی بے وفائی پر
اگر ان میں سے کوئی با وفا ہوتا تو کیا ہوتا

رلایا اہل محفل کو نگاہ یاس نے میری
قیامت تھی جو اک قطرہ ان آنکھوں سے جدا ہوتا

خدا کو بھول کر انسان کے دل کا یہ عالم ہے
یہ آئینہ اگر صورت نما ہوتا تو کیا ہوتا

اگر دم بھر بھی مٹ جاتی خلش خار تمنا کی
دل حسرت طلب کو اپنی ہستی سے گلا ہوتا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.