اگر اتنا نہ تو عیار ہوتا
Appearance
اگر اتنا نہ تو عیار ہوتا
تو دشمن کا نہ ہرگز یار ہوتا
دوئی کا نقش مٹتا دل سے اے کاش
مئے وحدت سے میں سرشار ہوتا
جو ہوتے آج کل قیس اور فرہاد
میں ان کا قافلہ سالار ہوتا
نہ ہوتا گر ترا طالب جہاں میں
تو میں پابند ننگ و عار ہوتا
لگائے چاٹ پر ہیں اس کو دشمن
الٰہی میں بھی کچھ زردار ہوتا
اگر ہوتا مجھے پاس آبرو کا
نہ تیرا عاشق دیدار ہوتا
تڑپتا ہے قفس میں طائر دل
نکل جاتا اگر پر دار ہوتا
تمنا دل کی ساقیؔ جب نکلتی
اگر منہ سے نہ کچھ اظہار ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |