Jump to content

اک عالم حیرت ہے فنا ہے نہ بقا ہے

From Wikisource
اک عالم حیرت ہے فنا ہے نہ بقا ہے
by اصغر گونڈوی
298097اک عالم حیرت ہے فنا ہے نہ بقا ہےاصغر گونڈوی

اک عالم حیرت ہے فنا ہے نہ بقا ہے
حیرت بھی یہ حیرت ہے کہ کیا جانیے کیا ہے

سو بار جلا ہے تو یہ سو بار بنا ہے
ہم سوختہ جانوں کا نشیمن بھی بلا ہے

ہونٹوں پہ تبسم ہے کہ اک برق بلا ہے
آنکھوں کا اشارہ ہے کہ سیلاب فنا ہے

سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی
کچھ خواب ہے کچھ اصل ہے کچھ طرز ادا ہے

ہے تیرے تصور سے یہاں نور کی بارش
یہ جان حزیں ہے کہ شبستان حرا ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.