اک صدمہ درد دل سے مری جان پر تو ہے
Appearance
اک صدمہ درد دل سے مری جان پر تو ہے
لیکن بلا سے یار کے زانو پہ سر تو ہے
آنا ہے ان کا آنا قیامت کا دیکھیے
کب آئیں لیکن آنے کی ان کے خبر تو ہے
ہے سر شہید عشق کا زیب سنان یار
صد شکر بارے نخل وفا بارور تو ہے
مانند شمع گریہ ہے کیا شغل طرفہ تر
ہو جاتی رات اس میں بلا سے بسر تو ہے
ہے درد دل میں گر نہیں ہمدرد میرے پاس
دل سوز کوئی گر نہیں سوز جگر تو ہے
اے دل ہجوم درد و الم سے نہ تنگ ہو
خانہ خراب خوش ہو کہ آباد گھر تو ہے
تربت پہ دل جلوں کی نہیں گر چراغ و گل
سینے میں سوزش دل و داغ جگر تو ہے
غائب میں جو کہا سو کہا پھر بھی ہے یہ شکر
خاموش ہو گیا وہ مجھے دیکھ کر تو ہے
کشتی بحر غم ہے مرے حق میں تیغ یار
کر دیتی ایک دم میں ادھر سے ادھر تو ہے
وہ دل کہ جس میں سوز محبت نہ ہووے ذوقؔ
بہتر ہے سنگ اس سے کہ اس میں شرر تو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |