اڑا لیے ہیں کچھ ارباب گلستاں نے تو کیا
Appearance
اڑا لیے ہیں کچھ ارباب گلستاں نے تو کیا
ہزار شیوۂ نو ہیں مری فغاں کے لیے
زمین کوچۂ جاناں سے آ رہی ہے صدا
بلندیاں نہیں مخصوص آسماں کے لیے
ہے ختم حوصلہ مندی وجود آدم پر
ستیزۂ کار ہے فتح غم جہاں کے لیے
ہے سخت بے ادبی گر کہے فسانۂ عشق
ہر ایک بات مناسب نہیں زباں کے لیے
اندھیری رات تھکی ہمتیں کڑی منزل
سلامتی کی دعا مانگ کارواں کے لیے
سجائی فکر درخشاں نے میری بزم نجوم
تھی منتظر یہ زمیں ناز آسماں کے لیے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |