اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم
اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم
گھبرا گئے ہیں بے دلئ ہم رہاں سے ہم
کچھ ایسی دور بھی تو نہیں منزل مراد
لیکن یہ جب کہ چھوٹ چلیں کارواں سے ہم
اے یاد یار دیکھ کہ باوصف رنج ہجر
مسرور ہیں تری خلش ناتواں سے ہم
معلوم سب ہے پوچھتے ہو پھر بھی مدعا
اب تم سے دل کی بات کہیں کیا زباں سے ہم
اے زہد خشک تیری ہدایت کے واسطے
سوغات عشق لائے ہیں کوئے بتاں سے ہم
بیتابیوں سے چھپ نہ سکا حال آرزو
آخر بچے نہ اس نگہ بدگماں سے ہم
پیرانہ سر بھی شوق کی ہمت بلند ہے
خواہان کام جاں ہیں جو اس نوجواں سے ہم
مایوس بھی تو کرتے نہیں تم ز راہ ناز
تنگ آ گئے ہیں کشمکش امتحاں سے ہم
خلوت بنے گی تیرے غم جاں نواز کی
لیں گے یہ کام اپنے دل شادماں سے ہم
ہے انتہائے یاس بھی اک ابتدائے شوق
پھر آ گئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم
حسرتؔ پھر اور جا کے کریں کس کی بندگی
اچھا جو سر اٹھائیں بھی اس آستاں سے ہم
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |