Jump to content

اٹھائیں گے کوئی تازہ قیامت تن کے بیٹھے ہیں

From Wikisource
اٹھائیں گے کوئی تازہ قیامت تن کے بیٹھے ہیں (1937)
by رفیع احمد عالی
324357اٹھائیں گے کوئی تازہ قیامت تن کے بیٹھے ہیں1937رفیع احمد عالی

اٹھائیں گے کوئی تازہ قیامت تن کے بیٹھے ہیں
بگاڑیں گے ہزاروں گھر کہ وہ بن ٹھن کے بیٹھے ہیں

ہمارے قتل سے ناحق ہیں نادم اپنے گھر جائیں
جھکائے سر عبث اب سامنے مدفن کے بیٹھے ہیں

اٹھایا ہجر میں طوفان کیا کیا چشم گریاں نے
یہ دیکھو بام و در کیسے مرے مسکن کے بیٹھے ہیں

قسم کھائی تھی ملنے کی عدو کے کچھ تو شرماؤ
یہ تم بیٹھے ہو یا پہلو میں ہم دشمن کے بیٹھے ہیں

نکلنے ہی نہیں دیتے ہیں کانٹے دشت وحشت سے
پکڑنے والے ہر جانب مرے دامن کے بیٹھے ہیں


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).