Jump to content

اولاد

From Wikisource
اولاد (1955)
by سعادت حسن منٹو
319984اولاد1955سعادت حسن منٹو

جب زبیدہ کی شادی ہوئی تو اس کی عمر پچیس برس کی تھی۔ اس کے ماں باپ تو یہ چاہتے تھے کہ سترہ برس کے ہوتے ہی اس کا بیاہ ہو جائے مگر کوئی مناسب و موزوں رشتہ ملتا ہی نہیں تھا۔ اگر کسی جگہ بات طے ہونے پاتی تو کوئی ایسی مشکل پیدا ہو جاتی کہ رشتہ عملی صورت اختیار نہ کرسکتا۔

آخر جب زبیدہ پچیس برس کی ہوگئی تو اس کے باپ نے ایک رنڈوے کا رشتہ قبول کرلیا۔ اس کی عمر پینتیس برس کے قریب قریب تھی، یا شاید اس سے بھی زیادہ ہو۔ صاحبِ روزگار تھا۔ مارکیٹ میں کپڑے کی تھوک فروشی کی دکان تھی۔ ہر ماہ پانچ چھ سو روپے کما لیتا تھا۔

زبیدہ بڑی فرماں بردار لڑکی تھی۔ اس نے اپنے والدین کا فیصلہ منظور کرلیا۔ چنانچہ شادی ہوگئی، اور وہ اپنے سسرال چلی گئی۔

اس کا خاوند جس کا نام علم الدین تھا، بہت شریف اور محبت کرنے والا ثابت ہوا۔ زبیدہ کی ہر آسائش کا خیال رکھتا۔ کپڑے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ حالانکہ دوسرے لوگ اس کے لیے ترستے تھے۔ چالیس ہزار اور تھری بی کا لٹھا، شنوں اور دو گھوڑے کی بوسکی کے تھانوں کے تھان زبیدہ کے پاس موجود تھے۔

وہ اپنے میکے ہر ہفتے جاتی۔۔۔ ایک دن وہ گئی تو اس نے ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ہی بین کرنے کی آواز سنی۔ اندر گئی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ اچانک دل کی حرکت بند ہونے کے باعث مر گیا ہے۔اب زبیدہ کی ماں اکیلی رہ گئی تھی۔ گھر میں سوائے ایک نوکر کے اور کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنے شوہر سے درخواست کی کہ وہ اسے اجازت دے کہ وہ اپنی بیوہ ماں کو اپنے پاس بلالے۔

علم الدین نے کہا، ’’اجازت لینے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ یہ تمہارا گھر ہے اور تمہاری ماں میری ماں۔۔۔ جاؤ انہیں لے آؤ۔۔۔ جو سامان وغیرہ ہو گا اس کو یہاں لانے کا بندوبست میں ابھی کیے دیتا ہوں۔‘‘

زبیدہ بہت خوش ہوئی۔ گھر کافی بڑا تھا۔ دو تین کمرے خالی پڑے تھے۔ وہ تانگے میں گئی اور اپنی ماں کو ساتھ لے آئی۔ علم الدین نے سامان اٹھوانے کا بندوبست کردیا تھا، چنانچہ وہ بھی پہنچ گیا۔ زبیدہ کی ماں کے لیے کچھ سوچ بچار کے بعد ایک کمرہ مختص کردیا گیا۔

وہ بہت ممنون و متشکرتھی۔ اپنے داماد کے حسنِ سلوک سے بہت متاثر۔ اس کے جی میں کئی مرتبہ یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنا سارا زیور جو کئی ہزاروں کی مالیت کا تھا، اس کو دے دے کہ وہ اپنے کاروبار میں لگائے اور زیادہ کمائے۔ مگروہ طبعاً کنجوس تھی۔

ایک دن اس نے اپنی بیٹی سے کہا،’’مجھے یہاں آئے دس مہینے ہوگئے ہیں۔۔۔ میں نے اپنی جیب سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا۔۔۔ حالانکہ تمہارے مرحوم باپ کے چھوڑے ہوئے دس ہزار روپے میرے پاس موجود ہیں۔۔۔ اور زیور الگ۔‘‘

زبیدہ انگیٹھی کے کوئلوں پر پھلکا سینک رہی تھی،’’ماں،تم بھی کیسی باتیں کرتی ہو۔۔۔‘‘

’’کیسی ویسی میں نہیں جانتی۔۔۔ میں نے یہ سب روپے علم الدین کو دے دیے ہوتے، مگر میں چاہتی ہوں کہ تمہارے کوئی بچہ پیدا ہو۔۔۔ تو یہ سارا روپیہ اس کو تحفے کے طور پر دوں۔۔۔‘‘

زبیدہ کی ماں کو اس بات کا بڑا خیال تھا کہ ابھی تک بچہ پیدا کیوں نہیں ہوا۔۔۔ شادی ہوئے قریب قریب دو برس ہوچکے تھے، مگر بچے کی پیدائش کے آثار ہی نظر نہیں آتے تھے۔وہ اسے کئی حکیموں کے پاس لے گئی۔ کئی معجونیں، کئی سفوف، کئی قرص اس کو کھلوائے، مگر خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔

آخر اس نے پیروں فقیروں سے رجوع کیا۔ ٹونے ٹوٹکے استعمال کیے گئے، تعویذ، دھاگے بھی۔۔۔ مگر مراد بر نہ آئی۔ زبیدہ اس دوران میں تنگ آگئی۔ ایک دن چنانچہ اس نے اکتا کر اپنی ماں سے کہہ دیا،’’چھوڑو اس قصّے کو۔۔۔ بچہ نہیں ہوتا تو نہ ہو۔۔۔‘‘

اس کی بوڑھی ماں نے منہ بسور کرکہا،’’بیٹا۔۔۔ یہ بہت بڑا قصّہ ہے۔۔۔ تمہاری عقل کو معلوم نہیں کیا ہوگیا ہے۔۔۔ تم اتنا بھی نہیں سمجھتی کہ اولاد کا ہونا کتنا ضروری ہے۔۔۔ اسی سے تو انسان کی زندگی کا باغ سدا ہرا بھرا رہتا ہے۔‘‘

زبیدہ نے پھلکا چنگیر میں رکھا، ’’میں کیا کروں۔۔۔ بچہ پیدا نہیں ہوتا تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟‘‘

بڑھیا نے کہا، ’’قصور کسی کا بھی نہیں بیٹی۔۔۔بس صرف ایک اللہ کی مہربانی چاہیے۔‘‘

زبیدہ اللہ میاں کے حضور ہزاروں مرتبہ دعائیں مانگ چکی تھی کہ وہ اپنے فضل و کرم سے اس کی گود ہری کرے، مگر اس کی ان دعاؤں سے کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔

جب اس کی ماں نے ہر روز اس سے بچے کی پیدائش کے متعلق باتیں کرنا شروع کیں، تو اس کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ بنجر زمین ہے، جس میں کوئی پودا اگ ہی نہیں سکتا۔ راتوں کو وہ عجیب عجیب سے خواب دیکھتی۔ بڑے اوٹ پٹانگ قسم کے۔ کبھی یہ دیکھتی کہ وہ لق و دق صحرا میں کھڑی ہے، اس کی گود میں ایک گل گو تھنا سا بچہ ہے، جسے وہ ہوا میں اتنے زور سے اچھالتی ہے کہ وہ آسمان تک پہنچ کر غائب ہو جاتا ہے۔ کبھی یہ دیکھتی کہ وہ اپنے بستر میں لیٹی ہے جو ننھے منے بچوں کے زندہ اور متحرک گوشت سے بنا ہے۔

ایسے خواب دیکھ دیکھ کر اس کا دل و دماغ غیر متوازن ہوگیا۔۔۔ بیٹھے بیٹھے اس کے کانوں میں بچوں کے رونے کی آواز آنے لگی، اوروہ اپنی ماں سے کہتی،’’یہ کس کا بچہ رو رہا ہے؟ ‘‘اس کی ماں نے اپنے کانوں پر زور دے کر یہ آواز سننے کی کوشش کی،جب کچھ سنائی نہ دیا تو اس نے کہا’’ کوئی بچہ رو نہیں رہا۔۔۔‘‘

’’نہیں ماں۔۔۔ رو رہا ہے۔۔۔ بلکہ رو رو کے ہلکان ہوئے جا رہا ہے۔‘‘

اس کی ماں نے کہا، ’’یا تو میں بہری ہوگئی ہوں، یا تمہارے کان بجنے لگے ہیں۔‘‘

زبیدہ خاموش ہوگئی، لیکن اس کے کانوں میں دیر تک کسی نوزائیدہ بچے کے رونے اور بلکنے کی آوازیں آتی رہیں۔ اس کو کئی بار یہ بھی محسوس ہوا کہ اس کی چھاتیوں میں دودھ اتر رہا ہے۔ اس کا ذکر اس نے اپنی ماں سے نہ کیا۔ لیکن جب وہ اندر اپنے کمرے میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے گئی تو اس نے قمیص اٹھا کر دیکھا کہ اس کی چھاتیاں ابھری ہوئی تھیں۔

بچے کے رونے کی آواز اس کے کانوں میں اکثر ٹپکتی رہی۔۔۔ لیکن وہ اب سمجھ گئی تھی کہ یہ سب واہمہ ہے۔ حقیقت صرف یہ ہے کہ اس کے دل و دماغ پر مسلسل ہتھوڑے پڑتے رہے ہیں کہ اس کے بچہ کیوں نہیں ہوتا اور وہ خود بھی بڑی شدت سے وہ خلا محسوس کرتی ہے، جو کسی بیاہی عورت کی زندگی میں نہیں ہونا چاہیے۔

وہ اب بہت اداس رہنے لگی۔۔۔ محلے میں بچے شور مچاتے تو اس کے کان پھٹنے لگتے۔ اس کا جی چاہتا کہ باہر نکل کر ان سب کا گلا گھونٹ ڈالے۔ اس کے شوہر علم الدین کو اولاد وولاد کی کوئی فکر نہیں تھی۔ وہ اپنے بیوپار میں مگن تھا۔ کپڑے کے بھاؤ روز بروز چڑھ رہے تھے۔ آدمی چونکہ ہوشیار تھا، اس لیے اس نے کپڑے کا کافی ذخیرہ جمع کر رکھا تھا۔ اب اس کی ماہانہ آمدن پہلے سے دوگنا ہو گئی تھی۔

مگر اس آمدن کی زیادتی سے زبیدہ کو کوئی خوشی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ جب اس کا شوہر نوٹوں کی گڈی اس کو دیتا، تو اسے اپنی جھولی میں ڈال کر دیر تک انہیں لوری دیتی رہتی۔۔۔ پھر وہ انہیں اٹھا کر کسی خیالی جھولنے میں بٹھا دیتی۔

ایک دن علم الدین نے دیکھا کہ وہ نوٹ جو اس نے اپنی بیوی کو لا کر دیے تھے، دودھ کی پتیلی میں پڑے ہیں۔ وہ بہت حیران ہوا کہ یہ کیسے یہاں پہنچ گئے۔ چنانچہ اس نے زبیدہ سے پوچھا، ’’یہ نوٹ دودھ کی پتیلی میں کس نے ڈالے ہیں؟‘‘

زبیدہ نے جواب دیا، ’’بچے بڑے شریر ہیں، یہ حرکت انہی کی ہوگی۔‘‘

علم الدین بہت متحیر ہوا، ’’لیکن یہاں بچے کہاں ہیں؟‘‘

زبیدہ اپنے خاوند سے کہیں زیادہ متحیر ہوئی، ’’کیا ہمارے ہاں بچے نہیں۔۔۔ آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں۔۔۔ ابھی اسکول سے واپس آتے ہوں گے۔۔۔ ان سے پوچھوں گی کہ یہ حرکت کس کی تھی۔‘‘

علم الدین سمجھ گیا، اس کی بیوی کے دماغ کا توازن قائم نہیں۔ لیکن اس نے اپنی ساس سے اس کا ذکر نہ کیا کہ وہ بہت کمزور عورت تھی۔وہ دل ہی دل میں زبیدہ کی دماغی حالت پر افسوس کرتا رہا۔ مگر اس کا علاج اس کے بس میں نہیں تھا۔ اس نے اپنے کئی دوستوں سے مشورہ لیا۔ ان میں سے چند نے اس سے کہا کہ پاگل خانے میں داخل کرادو۔ مگر اس کے خیال ہی سے اسے وحشت ہوتی تھی۔

اس نے دکان پر جانا چھوڑ دیا۔ سارا وقت گھر رہتا اور زبیدہ کی دیکھ بھال کرتا کہ مبادا وہ کسی روز کوئی خطرناک حرکت کر بیٹھے۔

اس کے گھر پر ہر وقت موجود رہنے سے زبیدہ کی حالت کسی قدر درست ہوگئی، لیکن اس کو اس بات کی بہت فکر تھی کہ دکان کا کاروبار کون چلا رہا ہے۔ کہیں وہ آدمی جس کو یہ کام سپرد کیا گیا ہے، غبن تو نہیں کررہا۔

اس نے چنانچہ کئی مرتبہ اپنے خاوند سے کہا، ’’دکان پر تم کیوں نہیں جاتے؟‘‘

علم الدین نے اس سے بڑے پیار کے ساتھ کہا، ’’جانم۔۔۔ میں کام کرکے تھک گیا ہوں، اب تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتاہوں۔‘‘

’’مگر دکان کس کے سپرد ہے؟‘‘

’’میرا نوکر ہے۔۔۔ وہ سب کام کرتا ہے۔‘‘

’’کیا ایمان دار ہے؟‘‘

’’ہاں، ہاں۔۔۔ بہت ایمان دار ہے۔۔۔ دمڑی دمڑی کا حساب دیتا ہے۔۔۔ تم کیوں فکر کرتی ہو۔‘‘

زبیدہ نے بہت متفکر ہو کر کہا،’’مجھے کیوں فکر نہ ہوگی، بال بچے دار ہوں۔ مجھے اپنا تو کچھ خیال نہیں ،لیکن ان کا تو ہے۔۔۔ یہ آپ کا نوکر اگر آپ کا روپیہ مار گیا تو یہ سمجھیے کہ بچوں۔۔۔‘‘

علم الدین کی آنکھوں میں آنسو آگئے، ’’زبیدہ۔۔۔ ان کا اللہ مالک ہے۔ ویسے میرا نوکر بہت وفادارہے اور ایمان دار ہے۔ تمہیں کوئی تردّد نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

’’مجھے تو کسی قسم کا تردد نہیں ہے، لیکن بعض اوقات ماں کو اپنی اولاد کے متعلق سوچنا ہی پڑتا ہے۔‘‘

علم الدین بہت پریشان تھا کہ کیا کرے۔ زبیدہ سارا دن اپنے خیالی بچوں کے کپڑے سیتی رہتی۔ ان کی جرابیں دھوتی، ان کے لیے اونی سویٹر بنتی۔ کئی بار اس نے اپنے خاوند سے کہہ کر مختلف سائز کی چھوٹی چھوٹی سینڈلیں منگوائیں، جنہیں وہ ہر صبح پالش کرتی تھی۔

علم الدین یہ سب کچھ دیکھتا اور اس کا دل رونے لگتا۔ اور وہ سوچتا کہ شاید اس کے گناہوں کی سزا اس کو مل رہی ہے۔ یہ گناہ کیا تھے، اس کا علم، علم الدین کو نہیں تھا۔

ایک دن اس کا ایک دوست اس سے ملا جو بہت پریشان تھا۔ علم الدین نے اس سے پریشانی کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ اس کا ایک لڑکی سے معاشقہ ہوگیا تھا۔ اب وہ حاملہ ہوگئی۔ اسقاط کے تمام ذرائع استعمال کیے گئے ہیں مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ علم الدین نے اس سے کہا،’’دیکھو، اسقاط و سقاط کی کوشش نہ کرو۔ بچہ پیدا ہونے دو۔‘‘

اس کے دوست نے، جسے ہونے والے بچے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی،کہا،’’میں بچے کا کیا کروں گا؟‘‘

’’تم مجھے دے دینا۔‘‘

بچہ پیدا ہونے میں کچھ دیر تھی۔ اس دوران میں علم الدین نے اپنی بیوی زبیدہ کو یقین دلایا کہ وہ حاملہ ہے اور ایک ماہ کے بعد اس کے بچہ پیدا ہوجائے گا۔

زبیدہ بار بار کہتی، ’’مجھے اب زیادہ اولاد نہیں چاہیے، پہلے ہی کیا کم ہیں۔‘‘

علم الدین خاموش رہتا۔

اس کے دوست کی داشتہ کے لڑکا پیدا ہوا، جو علم الدین نے زبیدہ کے پاس، جو کہ سورہی تھی، لٹا دیا۔۔۔ اور اسے جگا کر کہا ’’زبیدہ، تم کب تک بے ہوش پڑی رہو گی۔ یہ دیکھو، تمہارے پہلو میں کیا ہے؟‘‘

’’زبیدہ نے کروٹ بدلی اوردیکھا کہ اس کے ساتھ ایک ننھا منا بچہ ہاتھ پاؤں ماررہا ہے، علم الدین نے اس سے کہا، ’’لڑکا ہے۔ اب خدا کے فضل و کرم سے ہمارے پانچ بچے ہوگئے ہیں۔‘‘

زبیدہ بہت خوش ہوئی، ’’یہ لڑکا کب پیدا ہوا؟‘‘

’’صبح سات بجے۔‘‘

’’اور مجھے اس کا علم ہی نہیں۔۔۔ میرا خیال ہے، درد کی وجہ سے میں بے ہوش ہوگئی ہوں گی۔‘‘

علم الدین نے کہا، ’’ہاں، کچھ ایسی ہی بات تھی، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے سب ٹھیک ہوگیا۔‘‘

دوسرے روز جب علم الدین اپنی بیوی کو دیکھنے گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ لہولہان ہے۔ اس کے ہاتھ میں اس کا کٹ تھروٹ استرا ہے۔ وہ اپنی چھاتیاں کاٹ رہی ہے۔

علم الدین نے اس کے ہاتھ سے استرا چھین لیا، ’’یہ کیا کررہی ہو تم؟‘‘

زبیدہ نے اپنے پہلو میں لیٹے ہوئے بچے کی طرف دیکھا اور کہا، ’’ساری رات بلکتا رہا ہے، لیکن میری چھاتیوں میں دودھ نہ اترا۔۔۔ لعنت ہے ایسی۔۔۔‘‘

اس سے آگے، وہ اور کچھ نہ کہہ سکی۔ خون سے لتھڑی ہوئی ایک انگلی اس نے بچے کے منہ کے ساتھ لگا دی، اور ہمیشہ کی نیند سو گئی۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.