ان کی رفتار سے دل کا عجب احوال ہوا
ان کی رفتار سے دل کا عجب احوال ہوا
رندہ گیا پس گیا مٹی ہوا پامال ہوا
دشت وحشت کا علاقہ مجھے امسال ہوا
داغ سودا صفت نیر اقبال ہوا
اس بکھیڑے سے الٰہی کہیں چھٹکارا ہو
عشق گیسو نہ ہوا جان کا جنجال ہوا
نظر لطف نہ کی تو نے مرے رونے پر
طفل اشک اے مہ خوبی نہ خوش اقبال ہوا
ہیں وہ صوفی جو کبھی نالۂ ناقوس سنا
وجد کرنے لگے ہم دل کا عجب حال ہوا
پڑ گیا ان پہ مرے پیچ میں لانے کا وبال
کیا پریشان ترے گیسوؤں کا حال ہوا
دولت فقر ہو اے منعمو اور کملی ہو
فخر کیا ہے جو دوشالہ ہوا رومال ہوا
اپنی قسمت کا نوشتہ جو دکھایا ہم نے
حشر کے روز غلط نامۂ اعمال ہوا
آسماں نے مجھے محروم شہادت رکھا
تیغ قاتل کے لئے بخت سیہ ڈھال ہوا
لوگ کہنے لگے کندن پہ چڑھائے مینا
سبزۂ خط سے وہ خوش رنگ ترا گال ہوا
تیغ حسن اے گل تر ہو گئی خون آلودہ
مجھ پہ غصے میں تیرا منہ جو بہت لال ہوا
طائر دل کی لئے آپ نے صیادی کی
رشتۂ دام بلا زلف کا ہر بال ہوا
لا مکاں تک کہیں ٹھہرا نہ مرا پائے خیال
مزرع سبز فلک بیچ میں پامال ہوا
اے صباؔ آپ رعایت نہ کریں لفظوں کی
زر گل پایا جو گلچیں نے تو کیا مال ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |