ان کی رخصت اک قیامت تھی دم اظہار صبح
ان کی رخصت اک قیامت تھی دم اظہار صبح
شام تک بچتا نظر آتا نہیں بیمار صبح
مجھ کو بھی اے شمع رو لے وصل کی شب ہے اخیر
اور دو آنسو بہا اے کشتۂ آزار صبح
کھو دیا طول شب فرقت نے لطف انتظار
دیدۂ بے خواب کو ہے حسرت دیدار صبح
وصل کی شب بجھ گیا تھا جو ہمارا داغ دل
مہر بن کر اب وہی ہے طرۂ دستار صبح
صبح سے پہلے الٹ دی اس نے چہرے سے نقاب
اب کوئی کافر بھی کر سکتا نہیں انکار صبح
رات بھر میری زباں پر سر گذشت شام غم
ان کے لب ہیں آشنائے لذت گفتار صبح
وصل کی بے لطفیاں بھی لطف سے خالی نہیں
رات بھر دل کو مزہ دیتی رہی تکرار صبح
عید ملنے آئیں وہ گر عید کا نکلا ہے چاند
شام آئے ساتھ لے کر دولت بیدار صبح
وصل میں ہے اپنی قسمت کی خلش بھی یادگار
دامن شب سے الجھ جاتے ہیں اکثر خار صبح
دے صبوحی جلد ساقی اب نہیں ماہ صیام
بے سبب کیوں راہ دیکھیں شام کی مے خوار صبح
دیکھنا کیا جلد گزری ہے شب وعدہ نظرؔ
وہ ادھر آئے ادھر ظاہر ہوئے آثار صبح
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |