ان کو حال دل پر سوز سنا کر اٹھے
Appearance
ان کو حال دل پر سوز سنا کر اٹھے
اور دو چار کے گھر آگ لگا کر اٹھے
تم نے پہلو میں مرے بیٹھ کے آفت ڈھائی
اور اٹھے بھی تو اک حشر اٹھا کر اٹھے
وعدۂ وصل سے ہے نعش پہ آنے کی امید
مژدۂ قتل مرا مجھ کو سنا کر اٹھے
منہ چھپانے میں تو ہے شرم و حیا کا پردہ
ہاں مگر دل بھی نگہ تھا کہ چرا کر اٹھے
آج آئے تھے گھڑی بھر کو ظہیرؔ ناکام
آپ بھی روئے ہمیں ساتھ رلا کر اٹھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |