ان آنکھوں سے آب کچھ نہ نکلا
Appearance
ان آنکھوں سے آب کچھ نہ نکلا
غیر از خوں ناب کچھ نہ نکلا
بوسے کا کیا سوال لیکن
اس منہ سے جواب کچھ نہ نکلا
باہم ہوئی یوں تو دید وا دید
پر دل کا حجاب کچھ نہ نکلا
جز تیری ہوا کے اپنے سر میں
مانند حباب کچھ نہ نکلا
کرتا تھا بہت سا مجھ پہ دعویٰ
پر وقت حساب کچھ نہ نکلا
سینے میں جو دل کی کی تفحص
جز دود کباب کچھ نہ نکلا
ہم سمجھے تھے جس کو مصحفیؔ یار
وہ خانہ خراب کچھ نہ نکلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |