Jump to content

انقلاب (اعظم کریوی)

From Wikisource
انقلاب
by اعظم کریوی
319621انقلاباعظم کریوی

جو کھونے چلم کا دم لگاتے ہوئے مہابیر حلوائی سے کہا ’’اب ہمارے گاؤں میں بھی لچھمی دیوی کی کرپا ہونے والی ہے۔‘‘ مہابیر نے اپنے بوسیدہ خوانچہ پر سے مکھیاں اڑاتے ہوئے پوچھا ’’سو کیسے‘‘ جوکھو ’’ارے کیا تم کو خبر نہیں ہے کہ ہمارے گاؤں میں ہوائی جہاز کا کارخانہ کھلنے والا ہے۔ اب تمہاری تو خوب موج رہے گی۔‘‘ مہابیر نے اپنی پرانی گڑکی جلیبی پر حسرت سے نظر ڈالی، گزشتہ اتوار کو سیر بھر بازار سے خریدلایا تھا لیکن اب تک بکنے کی نوبت نہ آئی تھی۔ خوش ہوکر دریافت کیا ’’میری موج کیسی رہے گی۔‘‘

جوکھو۔ واہ تم اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے، آج کل تم بڑی مشکل سے دن بھر میں دو پیسے کی ریوڑی یا جلیبی بیچتے ہوگے۔ گاؤں والے ان کی قدر کیا جانیں۔ مُدا (مگر) جب کارخانہ بن جائے گا تو تمہاری اتنی مٹھائی بکے گی کہ بہت جلد سیٹھ بن جاؤگے۔ مہابیر نے اپنی خوشی کو دباتے ہوئے کہا ’’سوبھیا تم بڑے مزے میں رہوگے، تاڑی کی قیمت چوگنی ہوجائے گی۔‘‘ جوکھو کلوار نے ہاتھ سے چلم رکھ دی اور بولا ’’میں تو اب شراب کا بھی ٹھیکہ لینے والا ہوں، کل میں شہر گیا تھا وہاں داروغہ جی اور تحصیلدار صاحب نے خود مجھ سے کہا ہے کہ سیٹھ ہوائی جہاز کا کارخانہ تمہارے گاؤں میں کھلنے والا ہے۔ ہم سوائے تمہارے اور کسی کو شراب کا ٹھیکہ نہ دیں گے۔‘‘ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ وہاں پر مہاراج گنیشی اور شبراتی میاں آگئے، اریا کے یہ دونوں زمیندار تھے۔ مہابیر اور جوکھو نے اٹھ کر مہاراج کو پالاگن کی، اشیرباد دیکر کر مہاراج بولے ’’یارو کیا بات کر رہے ہو۔‘‘ جوکھو مہاراج! وہی کارخانہ کی بات چیت کر رہے تھے۔

مہاراج۔ معلوم نہیں کس کی زمین میں کارخانہ بنے گا۔

جوکھو۔ سو یہ تو مجھے معلوم ہے کہ کارخانہ مشترکہ زمین میں بنے گا، مُدا یہ سنا ہے کہ زیادہ تر زمین آپ کی چودھری گھسیٹے اور شبراتی میاں کی ہے، کچھ زمین ہربجنا بنیا کی بھی ہے۔

مہاراج۔ کہیں سرکار زبردستی زمین پر قبصہ نہ کرلے۔

مہابیر۔ سرکار ایسا جلم (ظلم) کبھی نہ کرے گی۔

جوکھو۔ تحصیلدار صاحب تو معاوصہ دینے کو کہتے تھے کل وہ خود گاؤں میں اسی کا فیصلہ کرنے آئیں گے۔

مہاراج۔ مجھ کو بھی وشواس ہے کہ معاوصہ ملے گا، چلو ذرا چودھری گھسیٹے اور بکریدی میاں سے بھی اس کا ذکر کریں۔

جوکھو۔ بکریدی میاں سے کیا ذکر کرو گے، جب ان کا لڑکا شبراتی میاں آپ کے ساتھ ہے تو جو کچھ پوچھنا ہے پوچھ لو۔

مہاراج۔ نہیں بھائی جب تک بکریدی میاں زندہ ہے ہم لوگ ان کے سامنے شبراتی میاں سے کچھ نہ پوچھیں گے، کیوں شبراتی میاں ٹھیک ہے نا۔

شبراتی میاں کو دل میں تو یہ مہاراج کی بات اچھی نہ معلوم ہوئی مگر بظاہر ہاں میں ہاں ملادی۔

بکریدی میاں کے یہ اکلوتے لڑکے تھے، حال ہی میں اِن کی شادی ہوئی تھی۔ بکریدی میاں نے اپنی تمام جائداد شبراتی میاں ہی کے نام لکھ دی تھی۔ لیکن پھر بھی وہی سب کام کرتے تھے۔ شبراتی میاں کو زمینداری یا کاشت کاری سے کوئی سروکار نہ تھا۔

امریا ضلع ہوشنگ آباد میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ چودھری گھسیٹے، مہاراج گنیشی بکریدی میاں اور بجنا بنیاکی یہاں زمینداری تھی۔ ان لوگوں کو زمینداری سے تو کچھ زیادہ فائدہ نہ تھا ہاں کاشت کاری سے بخوبی بسر اوقات ہوجاتی تھی۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہاں پر سرکار ہوائی جہاز کا کارخانہ بنانے والی ہے تو ہل چل مچ گئی اور سب لوگ بکریدی میاں کے دروازہ پر پنچایت کرنے کے لیے جمع ہوگئے۔ جو کھو کلوار تحصیلدار سے پہلے ہی مل آیا تھا۔ تحصیلدار صاحب نے اس سے وعدہ کرلیا تھا کہ جب کارخانہ بن جائے گا تو پھر وہ جوکھو کو شراب کا ٹھیکہ دلادیں گے۔ چنانچہ اسی لالچ میں وہ گاؤں بھر کو ورغلا رہا تھا۔ جب بکریدی میاں کے دروازہ پر بہت لوگ جمع ہوگئے تو سب سے پہلے اسی نے اٹھ کر کہا، بھائیوں بڑی خوشی کی بات ہے کہ سرکار ہمارے گاؤں میں ہوائی جہاز کا کارخانہ بنانے والی ہے۔ کارخانہ بن جانے سےہم غریبوں کا بھی بڑا فائدہ ہوگا۔ جن لوگوں کو دو آنہ مزدوری بھی مشکل سے ملتی ہے اب ان کو روپیہ روز مل سکیں گے۔ دھوبی، کمہار، حلال خور، چمار، بنیا، اہیر سب ہی کا فائدہ ہوگا۔

مہاراج گنیشی کو اپنی پڑی تھی، جھٹ سےبول اٹھے اور میرا کیا فائدہ ہوگا۔

جوکھو اب چودھری بکریدی میاں اور ہربجنا کی زمین ہی پر تو کارخانہ بنے گا۔ معاوضہ میں سرکار روپیہ دے گی۔ایک بات اور ہے ابھی تو گاؤں میں دو چار سو آدمی ہوں گے، کارخانہ بن جانے سےہزار بارہ سو آدمی ہوجائیں گے۔ چندہ سے ایک چھوٹا سا مندر بن جائے گا اور بس آپ وہاں پر بیٹھے ہوئے ست نرائن کی کتھا کہیے گا۔ بڑی آمدنی ہوگی۔ اعتراض کی گنجائش نہ تھی۔ مستقبل کی خوشی نے مہاراج کو مال کی فکر سے آزاد کردیا۔ لالچ نے کچھ سوچنے کا موقع بھی نہ دیا۔ خوش ہوکر بولے بھائیو جوکھو، ہے تو ان پڑھ پرنت (مگر) بات پتے کی کہتا ہے۔ کیوں چودھری تمہاری کیا رائے ہے۔ مہاراج کاگاؤں میں بڑا اثر تھا۔ چودھری نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملادی۔ مہابیر حلوائی ایک طرف بیٹھا ہوا خیالی قلعہ بنارہا تھا۔ میں خوب بڑی دوکان کھولوں گا۔ لکھنا کی اماں بہت دنوں سے گڑوا بنوانے کو کہہ رہی ہے۔ اب اس کو ضرور زیور بنوادوں گا۔ ہربجنا بنیا کی طرف دیکھ کر بولا کیوں سیٹھ تمہاری کیا رائے ہے، گڑستو اور چبینا ہی پر ہربجنا کی دوکان کا دارومدار تھا، زمینداری بہت تھوڑی تھی، زمین پرتی پڑی تھی۔ اس سے کچھ آمدنی کاسہارا تھااس نے بھی سوچا کہ کارخانہ سے میری دوکان بھی چمک جائے گی۔ اس نے بھی رضامندی ظاہر کردی۔ اب سب بکریدی میاں کی رائے معلوم کرنے کے لیے ان کی طرف دیکھنے لگے۔ شبراتی میاں کو نوجوان سمجھ کر کسی نے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ سمجھی۔ شبراتی میاں کو بہت برا معلوم ہوا اور وہ وہاں سے کھسک گئے۔

بکریدی میاں پرانے زمانے کے آدمی تھے۔ بیوی عرصہ ہوا مرچکی تھی۔ اس کی یادگار شبراتی میاں تھے۔ اکلوتا لڑکاسب کا لاڈلا ہوتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے بڑے ناز و نعم سے شبراتی میاں کی پرورش کی۔ پڑھانے لکھانے کی انھوں نے کچھ ضرورت نہ سمجھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ تھوڑی بہت زمینداری اور موروثی کاشتکاری بہت کافی ہے۔ شبراتی میاں جب سولہ برس کے ہوئے تو بکریدی میاں نے ان کی بری دھوم دھام سے شادی کردی۔ بیوی کے مرنےکے بعد بہو نےگھر کا تمام کام سنبھال لیا۔ بکریدی میاں کے گاؤں والے بڑی عزت کرتے تھے۔ جب ان کی رائے دریافت کی گئی تو وہ کھنکار کر بولے میرے خیال میں تو کارخانہ بن جانے سے ہمارا گاؤں تباہ ہوجائے گا۔

مہاراج نے جوکھو کی طرف دیکھ کر کہا، اب بولو!

جوکھو نے بکریدی میاں کی طرف دیکھ کر کہا واہ، بابا آپ بھی خوب کہتے ہیں۔ وجہ تو بتائی نہیں اور کہہ دیا کارخانہ سے گاؤں تباہ ہوجائے گا۔ کارخانہ تو پڑتی میں بنے گا۔ پڑتی تو فضول پڑی ہے۔ اس سے گاؤں والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کارخانہ بن جانے سے وہاں پر بہار آجائے گی۔

مہاراج نے بکریدی میاں سے ہنس کر کہا، بابا تم جوکھو کو ایسا ویسا نہ سمجھو، بڑی پتہ کی بات کہتاہے۔ آپ نے اس کو آلہا اودل پڑھتے سنا ہی ہوگا۔ رام دے اس جوار میں تو اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ سچ تو کہتا ہے کہ پڑتی سے ہمارا کیا فائدہ ہے۔

بکریدی میاں۔ ابھی تو تو پڑتی ہی کا نام ہے لیکن تم سب لوگ دیکھ لوگے کہ آہستہ آہستہ آس پاس کی اچھی زمین پر بھی سرکار قبضہ کرلے گی جہاں آج لہلہاتے کھیت ہیں وہاں کل چٹیل میدان ہوگا، یہی نہیں بلکہ وہ زمانہ بھی آجائے گا جب ہم اپنے مکانوں سے نکال دیے جائیں گے، ہمارے کچے مکانوں کو گراکر پکی عمارتیں بنائی جائیں گی لیکن اس پر دوسرے لوگ قابض ہوں گے۔ ابھی کہتے ہو کہ صرف کارخانہ بنے گا لیکن یہ تمہاری بھول ہے کارخانہ بنے گا تو اس کے ملازموں کے لیے بھی بارکیں بنائی جائیں گی اور ان کے لیے بھی زمین درکار ہوگی۔ افسروں کے لیے بنگلے بنیں گے اور ہماری ہی زمین پر قبضہ کیاجائے گا۔ ہماری بہو بیٹیاں جو آج بڑی آزادی سے کھلے منھ باہر آتی جاتی رہتی ہیں اور ان کی طرف کوئی بری نظر سے دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ پردیسی ان کا مذاق اڑائیں گے گھر سے باہر نکلنا دشوار ہوجائے گا تم کہتے ہو پڑتی سےہمیں کیا فائدہ ہے اس کاجواب یہ ہے کہ وہاں بڑی بڑی گھاس اگتی ہے، ڈھور ڈنگر چرتے ہیں، جب چراگاہ ہی نہ ہوگی تو مویشی کیا چارہ کھائیں گے۔

ایک اہیر بیٹھا اونگ رہا تھا بکریدی میاں کے آخری الفاظ سن کر چوک اٹھا اور بولا تو یہ کہو کہ کارخانہ کیا بنے گا ہمارے لیے مصیبت آجائے گی۔

جوکھو نے دیکھا کہ معاملہ بگڑا جاتا ہے جھٹ بول اٹھا۔ ہمارے گاؤں کے چاروں طرف جنگل ہی جنگل ہے۔ کیا پڑتی ہی کی کھاس سے کام چلتا ہے۔ بابا برانہ مانو تو ایک بات کہوں سرکار نے ہی ہم کو زمین دی ہے۔ اس کاجب جی چاہے ہم سے چھین لے۔ ہمارا کچھ بس نہیں چل سکتا۔ فریاد کرنے سےکچھ فائدہ نہ ہوگا۔

بکریدی میاں نے اداس ہوکر کہا جب یہی بات ہے تو پھر مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی جو تمہارے جی میں آئے کرو، لیکن میں اپنی زمین سرکار کو خوشی سے نہ دوں گا۔

جوکھو نے کہا لیکن تمہارا کچھ بس نہ چلے گا، سرکار تم سے زمین ضرور لے گی، خوشی سے دوگے تو خیر ورنہ زبردستی چھین لے گی اور مفت میں گاؤں کی بدنامی ہوگی۔

چودھری گھسیٹے گاؤں کے مکھیا تے ، انھوں نے سوچا کہ کہیں مفت میں نہ پس جاؤں، تحصیلدار صاحب کو خبر ہوجائے گی کہ میں نے لوگوں کو بہکایا ہے تو میرے حق میں بہت برا ہوگا۔ کہنے لگے ہاں بھائیوں جو کام کرو سوچ سمجھ کر کرو ’’دریا میں رہنا مگر سے بیر‘‘ کوئی اچھی بات نہ ہوگی۔ ہم سرکار ہی کا تو کھاتے ہیں، میرے خیال میں کارخانے بننے سےہمارا کوئی نقصان نہ ہوگا بلکہ ہر طرح سے فائدہ ہی ہوگا۔ کارخانہ کھلنے سے بازار بھی لگنے لگے گا، سودا سلف خریدنے اور بیچنےمیں ہر طرح کی آسانی ہوگی، ابھی تو ہفتہ میں دو دن ہمارے گاؤں میں ڈاک آتی ہے۔ کارخانہ بنتے ہی یہاں پر ڈاکخانہ بھی بن جائے گا۔ مدرسہ کھلے گا، اس میں ہمارے بچے پڑھیں گے۔

بکریدی میاں نے کہا۔ یہ سب کچھ صحیح ہے مگر جو خوش حالی اب ہمارے گاؤں میں ہے اس وقت نہ رہے گی۔

چودھری بولے، رہے گی کیوں نہیں تم اب سٹھیاگئے ہو، تمہاری باتیں بھی ایسی ہوتی ہیں۔

بکریدی میاں۔ میری باتوں کی سچائی تم لوگوں کو ابھی نہیں، کارخانہ کھلنے پرمعلوم ہوگی۔

جوکھو نے مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا ’’دیکھا جائے گا۔‘‘

امریا میں تحصیلدار صاحب مع اپنے عملہ کے تشریف لائے اور چودھری گھسیٹے کے دالان میں اپنا ڈیرہ جمایا، چودھری گھسیٹے مارے مارے پھرنے لگے۔ کڑاہیاں چڑھ گئیں، پوری اور خستہ کچوری تلی جانے لگی۔ دودھ کے گھڑے آگئے، بیگاروں نے تحصیلدار صاحب کے گھوڑے کے سامنے ہری ہری دوب لاکر ڈال دی۔ جوکھو کو تحصیلدار صاحب نے اپنی اردلی میں رکھا اور وہ چلم بھر بھر کر حقہ پلانےلگا۔ جب تحصیلدار صاحب اور ان کا عملہ کھاپی کر کچھ دیر آرام کرچکا تو کام کی باتیں شروع ہوئیں، جس زمین پر ہوائی جہاز کاکارخانہ بننے والا تھا اس کا نقشہ تحصیلدار صاحب نے کھولا۔ پٹواری نے مالکان کی فہرست پیش کی۔ مہاراج گنیشی، چودھری گھسیٹے، بکریدی میاں اور ہربجنا بنیا کا دل دھڑکنے لگا۔ تحصیلدار صاحب نے جوکھو سے کچھ آہستہ آہستہ باتیں کیں اور وہ ان کے پاس سے اٹھ کر چودھری کے پاس آکر بیٹھ گیا اور کہا پڑتی زمین کے علاوہ سرکار اور زمین بھی لے گی۔

مزروعہ کی زمین پر بھی قبضہ کیا جائے گا یہ سنتے ہی سب کے ہوش اڑ گئے۔ مہاراج نے گھبراکر کہا اب کیا ہوگا۔

جوکھو بولا ہوگا کیا، گھبرانے کی کچھ ضرورت نہیں۔ سرکار کیا معاوضہ نہ دے گی۔ تحصیلدار صاحب تو اسی کام کے لیےآئے ہیں۔ لیکن میری بات مانو تو ایک کام کرو، تحصیلدار صاحب کی بھینٹ کا کچھ انتظام کردو، بس سب کام بن جائے گا۔

بکریدی میاں ایک طرف چپ چاپ سرجھکائے بیٹھے تھے، بگڑ کر بولے مجھ سے یہ کام تو ہرگز نہ ہوگا۔ ایک تو زمین جائے اس پر رشوت بھی دوں۔ کہیں ایسا بھی کسی نے اندھیر دیکھا ہے۔

جوکھو۔ ’’تم جانو میں نے اچھی ترکیب بتائی ہے۔ تحصیلدار صاحب کی کچھ خدمت کردوگے تو اس کے بدلے میں وہ سرکار سے زیادہ معاوضہ دلادیں گے۔ آگے آپ لوگوں کی مرضی۔‘‘ یہ کہہ کر جوکھو نے ہربجنا بنیا سے پوچھا ’’کہو مہتو! تمہاری کیا رائے ہے۔جواب خوب سوچ سمجھ کر دینا کیوں کہ سرکاری معاملہ ہے۔ فریاد سے کچھ بھی فائدہ نہ ہوگا۔ سرکار کو زمین کی ضرورت ہے وہ لے کر ہی رہے گی۔‘‘

ہربجنا بولا جو مہاراج چودھری اور بکریدی میاں کی رائے ہوگی سو میری۔

چودھری گھسیٹے اور مہاراج نے جوکھو کی رائے مان لی۔ ہربجنا بنیا نے بھی ان کی تقلید کی لیکن بکریدی میاں نے صاف انکار کردیا۔ جوکھو نےتحصیلدار صاحب سے جاکر سارا حال کہہ دیا۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ مہاراج چودھری اور ہربجنا جی پرتی کو مزروعہ دکھایا گیا لیکن بکریدی میاں کی مزروعہ زمین کو بھی تحصیلدار صاحب نے اپنی رپورٹ میں پرتی ظاہر کیا۔ چنانچہ بکریدی میاں کے سوا سب کو حسب منشا معاوضہ کے لیے تحصیلدار صاحب نے سفارش کردی۔

بکریدی میاں کب خاموش رہنے والے تھے۔ بولے حضور انصاف کا خون نہ کیجیے۔ غریبوں کو ستاکر کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

تحصیلدار صاحب نے ڈانٹ کر کہا۔ خاموش رہو میں کچھ سننا نہیں چاہتا۔ جو کچھ سرکار نے حکم دیا ہے میں وہی کرتا ہوں۔ اس میں میرا کیا قصور ہے۔

بکریدی میاں پھر بولے لیک حضور ہماری سرکار کا یہ منشا نہیں ہے کہ آپ غریبوں کا گلادبائیں۔

جوکھو نے کہا، بکریدی میاں چپ بھی رہو، حاکم سے زبان نہیں لڑایا کرتے۔

مہاراج اپنی وفاداری کیوں نہ ثابت کرتے، کہنے لگے ہمارے شاستر میں بھی لکھا ہے راجہ، حاکم ایشور کا روپ ہوتا ہے۔ یہ ایشوری نیائے ہے کچھ کہنا سننا فضول ہے۔

چودھری گھسیٹے تو گاؤں کے مکھیا تھے، انھوں نے دیکھا کہ تحصیلدار صاحب کے خوش کرنے کا یہی موقع ہے، کہنے لگے ’’ہاں بکریدی میاں تمہاری یہ بری عادت ہے کہ اپنے آگے کسی کی نہیں سنتے۔‘‘

بکریدی میاں بولے ’’یارو کیا کہتے ہو ظلم ہو تو فریاد بھی نہ کروں۔‘‘

پٹواری نے اپنی کارگزاری جتاتے ہوئے تحصیلدار صاحب سے کہا ’’گزشتہ چیت میں تو بکریدی میاں نے اپنی تمام زمینداری اپنے لڑکے شبراتی میاں کےنام لکھ دی تھی، لڑکا بالغ ہے اور وہی اب جائداد کا مالک ہے۔ بکریدی میاں تو اب کچھ بول بھی نہیں سکتے۔‘‘

بکریدی میاں۔ تو کیا شبراتی اور میں کوئی غیر ہوں، آخر وہ میرا ہی تو لڑکا ہے۔ تحصیلدار صاحب بولے۔ شبراتی میاں کو بلاؤ۔ میں بکریدی میاں سے کچھ بات نہیں کرنا چاہتا۔

جوکھو نے کہا حضور ابھی بلائے لاتا ہوں۔

تحصیلدار نے بکریدی میاں سے کہا تم یہاں سے چلے جاؤ۔ شاید تمہاری موجودگی میں شبراتی میاں مجھ سے کھل کر نہ بات کریں۔ یہ سرکاری معاملہ ہے، اس میں کسی غیر کی مداخلت میں کسی طرح پسند نہیں کرسکتا۔

بکریدی میاں کی آنکھیں کھل گئیں، آج ان کو تحصیلدار صاحب کی بات سے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اس کا تجربہ ہوا کہ باپ بیٹے کاملاپ بھی سرکار کو پسند نہیں ہے۔ گھبراکر دالان کی طرف اشارہ کرکے بولے، حضور میں اس کے اندر بیٹھا جاتا ہوں۔اس میں تو کچھ ہرج نہ ہوگا۔ تحصیلدار صاحب نےمسکراکر اجازت دی اور بکریدی میاں اٹھ کر اندر جابیٹھے۔ وہاں سے وہ باہر کی سب باتیں بخوبی سن سکتے تھے۔ شبراتی میاں گاؤں میں کہیں پر بیٹھے ہوئے اپنے لنگوٹیا یاروں کے ساتھ تاش کھیل رہے تھے۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اس کی انھیں کچھ فکر نہ تھی۔ صبح اٹھتے ہی اپنی پچھائیں گائے کا سیر بھر دودھ پیتے اور پھر گپ شپ اڑانے کے لیے گھر سے باہر نکل جاتے۔ جب جوکھو نے ان سے جاکر کہا ’’چلو بھیا تم کو تحصیلدار صاحب بلاتے ہیں‘‘ تو وہ وہاں سے فوراً چودھری کے دروازے پر آئے۔ راستہ میں جوکھو نے خوب اچھی طرح ورغلایا۔ تحصیلدار صاحب نے شبراتی میاں کو دیکھ کر کہا ’’آؤ خاں صاحب میرے پاس بیٹھو۔‘‘ شبراتی میاں کا سر اونچا ہوگیا۔ تحصیلدار صاحب بڑے اچھے آدمی ہیں وہ میری اتنی قدر کریں گے اس کا تو مجھے خیال بھی نہ تھا۔

بکریدی میاں نے بھی سب کچھ سنا اور دیکھا، انھوں نے سوچا ’’تحصیلدار صاحب میرے لڑکے کو بہکا رہے ہیں، ہائے اگر اس نےمعاوضہ قبول کرلیا تو میری کتنی بھد ہوگی۔ گاؤں والوں کی نظر میں ذلیل ہوجاؤں گا۔ نہیں نہیں شبراتی بغیر میرے پوچھے ہرگز کوئی جواب نہ دے گا۔‘‘

تحصیلدار صاحب نے شبراتی میاں سے کہا ’’دیکھو خاں صاحب یاںں پر سرکار ہوائی جہاز کا کارخانہ بنوانے والی ہے۔ اسمیں تمہاری بھی زمین ہے۔ سرکار کو اس کی ضرورت ہے۔ آپ کو کوئی عذر تو نہیں ہے؟ شبراتی میاں سے جب مہاراج نے کہا تھا کہ تمہاری رائے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اسی دن سے وہ جلے ہوئے تھے۔ آج تحصیلدار صاحب نے ان کی رائے طلب کی تو وہ خوش ہوگئے۔اِدھر جوکھو اور ان کے دوستوں نے بھی ان کو خوب بہکایا تھا۔ ہوائی جہاز کا کارخانہ کھلے گاتو خوب مزہ آئے گا۔ قسم قسم کی دوکانیں کھلیں گی، بازار لگے گا،ہوائی جہاز دیکھیں گے۔ شہر کا لطف گاؤں ہی میں آجائے گا۔ شبراتی میاں مستقبل کی خوشی میں مگن تھے۔ باپ سے پوچھنے کا انھیں کچھ خیال نہ رہا۔ جھٹ سے بول اٹھے ’’جوسرکار کی مرضی مجھے کوئی عذر نہ ہوگا۔‘‘

شبراتی کی باتیں سن کر بکریدی میاں دنگ رہ گئے۔ شبراتی کی سعادت مندی پر ان کو بڑا ناز تھا۔ وہ خلف نکل جائے گا۔ اس کا انھیں سان گمان بھی نہ تھا۔ اگر اس سے پہلے کوئی ان سے کہتا کہ شبراتی خود مختار ہوگیا ہے تو وہ ہرگز یقین نہ کرتے لیکن آج ان کو معلوم ہوگیا کہ شبراتی پر اب ان کا کوئی اختیار نہیں۔ رنج و غم سے بکریدی میاں کا کلیجہ چھٹنے لگا، ہواس باختہ دالان سے باہر نکل آئے۔ تحصیلدار صاحب نے چٹکی لی، کہو بکریدی میاں اب کیا کہتے ہو، شبراتی میاں تو راضی ہوگئے۔ اب تم ان کو بہکا بھی نہیں سکتے۔ سب لوگ ہنسنے لگے۔ بکریدی میاں کا سر نیچا ہوگیا۔ ان کوایسا معلوم ہونے لگا گویا تمام دنیا ان کا مذاق اڑا رہی ہے۔ وہ اپنی نظروں میں خود حقیر معلوم ہونے لگے اور یہ سب کچھ شبراتی میاں کی وجہ سے ہوا۔ شبراتی میاں نے ان سے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی اسی کا بکریدی میاں کو بہت صدمہ تھا۔ پانی میں ڈوبتا ہوا انسان بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ دل کے پھپولے کو چھیڑ دیجیے تو وہ پھوٹ جائیں گے، بکریدی میاں کب تک صبر کرتے، تحصیلدار صاحب نے جو طعنہ مارا تو وہ دل کی بھڑاس یہ کہہ کر نکال ہی دی ’’تحصیلدار صاحب آپ نے تو میرے لڑکے کو بہکا ہی لیا، اب میں کس منہ سے اس سے کچھ کہہ سکتا ہوں، اس نے تو کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اب تو منشا پورا ہوگیا۔ لیکن مجھے کیا میں پکا آم ہوں، آج نہ مرا کل مرگیا، لیکن آپ بھی دیکھ لیجیے گا کہ آج سے امریا پر تباہی آگئی، جو لوگ میرا مذاق اڑا رہے ہیں اور کارخانہ قائم ہونے کے لیے اپنی خوشی کااظہار کر رہے ہیں، وہ بہت جلد روئیں گے۔ ابھی کارخانہ قائم بھی نہیں ہوا لیکن آج ہی سے اس گاؤں میں پھوٹ پڑ گئی۔ بیٹا باپ سےجدا ہوگیا، ابھی کیا ہے تَوسہی اگر کارخانہ اس گاؤں کا نشان بھی نہ مٹادے۔

مہاراج بولے بکریدی میاں بس بہت ہوچکا، چپ بھی رہیے۔ کو سا اچھا نہیں ہوتا، شبراتی! بابا کو گھر لے جاؤ۔

شبراتی میاں بولے۔ بابا جانے دو ایسی باتیں نہیں کیا کرو، چلو گھر چلو۔

مہنگوا چمار بولا۔ میاں کا اپنے لڑکے پر تو بس نہیں چلت (چلتا) الٹا ہم لوگن (لوگ) پر رسیات (غصہ) ہیں۔

بکریدی میاں کو ہر ایک کی بات زہر میں بجھی ہوئی معلوم ہوئی۔ وہ وہاں سے کھس کے ان کو جاتے دیکھ کر سب لوگوں نے کہا بابا سٹھیائے گئے ہیں ’’تحصیلدار اب ٹھٹھامار کر ہنسنے لگے۔ شبراتی میاں نے بھی ان کاساتھ دیا، بکریدی میاں جب گھر پہنچے تو اپنی بہو سے بولے ’’بیٹی میں اب اس گاؤں میں نہ رہوں گا، حج کرنے جاؤں گا۔‘‘

بہو خوش ہوگئی اس نے دل میں سوچا ’’اچھا ہوگا راہ سے کانٹا نکل جائے گا۔ پھر تو میں ہی گھر کی مالکن بن جاؤں گی۔ اپنا ہی راج ہوگا۔ اسی بڈھے کی وجہ سے تو میری کچھ چلتی نہیں۔ (خوش ہوکر بولی) ہاں بابا حج تو ضرور کرنا چاہیے۔ مجھے مکہ شریف سے زمزم کا پانی ضرور لائیے گا۔ بکریدی میاں نے کوئی جواب نہ دیا۔ سفر کی تیاری میں لگ گئے۔ رات کو شبراتی میاں کی بیوی نے شبراتی سے کہا ’’اور سنا! بابا حج کرنے جارہے ہیں۔‘‘

شبراتی نےجواب دیا ’’جانے دو ان کے بغیر یہاں کون کام رکا پڑا ہے خود تو کبھی مجھ سے کچھ پوچھتے نہیں اور اگر میں کسی سے کچھ کہتا سنتا ہوں تو جل جاتے ہیں۔ ان کی ہمیشہ سے یہی عادت رہی ہے۔ میرا تو ناک میں دم آگیا ہے۔‘‘

دوچار دن کے بعد بکریدی میاں حج کرنے چلے گئے۔ رخصتی کے وقت وہ شبراتی میاں کو اپنی چھاتی سے لگاکر خوب روئے۔ باپ بیٹے کا یہ آخری ملاپ تھا کیونکہ بکریدی میاں پھر جیتے جی کبھی گھر واپس نہ آئے۔

امریا میں کارخانہ بننے لگا۔ لہلہاتے کھیتوں کی جگہ میدان اور عمارتیں نظر آنے لگیں۔ مزدوروں کی بن آئی لیکن زمینداروں اور کاشتکاروں کی مصیبت آگئی۔ آٹھ آنے مزدوری پر بھی کوئی مزدور کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔ ایک روپیہ کارخانہ والے دیتے تھے۔ ایسی حالت میں کوئی مزدور زمیندار یا کاشتکار کی کیوں پروا کرتا۔ مہاراج گنیشی نے دوچار مرتبہ اپنے اسامیوں کو کارخانہ میں کام کرنے سے روکنا چاہا اس پر کارخانے کے صاحب نے پولیس میں رپورٹ کرادی کہ امریا کے زمیندار سرکاری کام میں مداخلت کرتے ہیں۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ گنیشی مہاراج کے علاوہ چودھری گھسیٹے اور شبراتی میاں پر بھی داروغہ جی کی ڈانٹ پڑی۔ پھر تو مزدور کھل کھیلے دبا ہوا مواد پھوٹ نکلا۔ زمینداروں کا رعب مزدوروں پر سے بالکل اٹھ گیا۔ کھیت کی ترائی تو درکنار اس کے کاٹنے والے بھی نہ ملے۔ ایک دانہ اناج بھی گھر میں نہ آیا۔ سب کھیت خراب ہوکر رہ گیا۔ جن بکھاریوں میں اناج رکھنےکو جگہ نہ ملتی تھی وہ اب خالی پڑی رہنے لگیں۔ شروع میں کارخانہ میں کام کرنے والوں کے رہنے کے لیے کوئی پارک وغیرہ نہیں بنی تھی۔ ٹھیکیدار کے آدمی بابو منشی خلاصی وغیرہ امریا ہی میں کرایہ پر مکان لے کر رہنے لگے۔ اس سے مہاراج گنیشی چودھری گھسیٹے اور ایسے ہی دو چار آدمیوں کو جن کے پاس بڑے بڑے مکانات تھے کچھ فائدہ ہوا۔ خود تکلیف میں رہنے لگے لیکن روپیہ کے لالچ میں اپنے مکانوں میں کرایہ داروں کو ٹہرا لیا۔ مگر برسات جو آئی تو مکانوں کی مرمت کے لیے مزدور نہ ملے۔ مکانات کچھے تھے۔ دھڑا دھڑ گرنے لگے۔ اس سے زمینداروں کا بڑا نقصان ہوا۔ مزدوروں کے بھی مکانات گرے لیکن انھوں نے کوئی پرواہ نہ کی کیونکہ اس عرصہ میں کارخانہ افسر نے ان کے لیے پکی بارکیں بنوادی تھیں۔ وہ اپنی جھونپڑیوں کو چھوڑ کر بارکوں میں منتقل ہوگئے۔ خالی زمینوں کو ساہوکاروں نے خرید کر ان پر پکے عالیشان مکانات بنوادیے۔ اس آپا دھاپی میں کاشتکاروں اور زمینداروں کا دیوالہ نکل گیا۔ سرمایہ داروں نے شروع میں تو ان کو قرض دیا اور پھر سود در سود کے جال میں پھنسا کر مکانات اور جائداد نیلام کرادی اور خود ہی خرید کر مالک بن بیٹھے۔ جوکھو کلوار کو خیال تھا کہ اس کو شراب کا ٹھیکہ ضرور مل جائے گا لیکن اس کے بجائے ایک مال دار کو مل گیا اور جوکھو اسی کے یہاں ملازم ہوگیا۔ مگر نیت خراب تھی، چوری اور غبن کے الزام میں سزا پاگیا۔ مہابیر حلوائی اور ہربجنا بنیا کا ہوائی قلعہ بھی مسمار ہوگیا۔ باہر والوں کی آراستہ پیراستہ دوکانوں کے سامنے ان کو کوئی فروغ نہ ہوا۔ کارخانہ کے ملازموں کو سودا سلف خریدنے کے لیے بہت دور جانا پڑتا تھا۔ سرکار نے ان کے آرام کے لیے امریا ہی میں بازار بنوادیا اور اس سے بھی پردیسیوں اور سرمایہ داروں ہی کافائدہ ہوا۔ گاؤں والوں کو تو ہر طرح سے نقصان ہی ہوا۔ بازار کھلنے سے بڑی رونق ہوئی۔ جس گاؤں میں کبھی خاموشی اور سکون کا عالم رہتا تھا اب شراب تاڑی گانجہ اور چرس وغیرہ کی دوکانیں کھلنے سے رات رات بھر راگ ورنگ کی محفلیں جمنے لگیں۔ دوچار وید اور حکیم بھی باہر سے آدھمکے۔ مریضوں کی بھرمار ہوگئی جو دیہاتی کبھی نیم کی سینکوں، تلسی کی پتیوں اور کالی مرچ ہی سے بخار کھانسی میں اچھے ہوجاتے تھے اب حکیموں اور ویدوں کی دواؤں میں اپنا روپیہ برباد کرنے لگے۔ گاؤں کا دھوبی پہلے سال بھر کپڑا دھوتا تھا اور اس کے بدلے میں دس پندرہ سیر اناج پاتا تھا۔ اب دوپیسہ اور ایک آنہ کپڑے کی دھلائی لینےلگا۔ ساہوکاروں کی پکی اور بلند عمارتیں جو تیار ہوئیں تو وہاں دوچار ڈیرہ دار طوائفیں اور بٹیرنیاں بھی آگئیں۔ پھر تو وہ عالم ہوا کہ خدا کی پناہ۔ پہلے گاؤں کی بہو بیٹیاں بے فکری سے کھیت کھلیان میں گھوم پھر سکتی تھیں لیکن اب ان کا گھر سے نکلنا دشوار ہوگیا۔ ایک دن چودھری گھسیٹے کی بہو مہاراجن کے ساتھ اپنے کسی پڑوسن کے یہاں جارہی تھی، ادھر سے کارخانہ کے کچھ اوباش خلاصی شراب میں مست جھومتے جھامتے چلے آرہے تھے۔ انھوں نے الاپنا شروع کیا:

کہاں چلی جنیاں نیناں لڑاکے ۔۔۔

بہو اور مہاراجن شرم کے مارے کٹ کٹ گئیں اور بھاگ کر اپنے گھروں میں گھس گئیں۔ خلاصی آگے بڑھے تو شبراتی میاں کی بیوی کو دیکھا کہ اپنے دروازہ پر کھڑی ہے۔ خلاصیوں کو شوروغل مچاتے دیکھ کر اس نے جھٹ دروازہ بند کرلیا۔ خلاصیوں نے پھر اپنی بے سری اڑائی۔

تیرے دیکھن کو راجہ ہم کب سے کھڑے
دن نہیں چیناں رات نہیں نندیا
جب سے سڑکوا پہ نینا لڑے
تیرے دیکھن کو پیاری ہم کب سے کھڑے

شبراتی میاں ٹھیک اسی وقت اپنے گھر کی طرف کہیں سے آرہے تھے۔ خلاصیوں کی بدتہذیبی پر ان کو بڑا غصہ آیا اور آؤ دیکھانہ تاؤ خلاصیوں سے الجھ پڑے۔ اِدھر وہ اس کے لیے پہلے ہی تیار تھے۔ ایک خلاصی نے ان کی ٹانگ پکڑی دوسرے نے ان کی پگڑی اچھالی تیسرے نے سر پہ دھول جمائی اور چوتھے نے اٹھاکر دے مارا۔ شبراتی میاں کی ساری شیخی کرکری ہوگئی۔ مہاراج اور گھسیٹے میاں بھی موقع پر آگئے لیکن سب کھڑے تماشہ ہی دیکھتے رہے اور خلاصی چلتے بنے۔ پہلے کی طرح اتفاق ہوتا تو خلاصیوں کی جان کے لالے پڑجاتے لیکن اب تو نفسی نفسی پڑی تھی۔ غریبی اور افلاس نے ان کے جوش کو سرد اور ہمتوں کو پست کردیا تھا۔ شبراتی میاں نے شور و غل بہت مچایا لیکن ’’کون سنتاہے فغانِ درویش‘‘۔ سرمایہ داروں نے خلاصیوں کا ساتھ دیا اور شبراتی میاں کا کچھ بھی بس نہ چلا۔ اسی دن سے شریفوں کی اور بھی مٹی پلید ہوگئی۔ لیکن رذیلوں کی ڈھاک بندھ گئی، پھر تو وہ زمانہ بھی آگیا کہ امیر غریب اور غریب امیر بن گئے۔ چار پانچ سال کے اندر ہی امریا کی بالکل کایا پلٹ گئی جو کبھی گاؤں تھا اب اچھا خاصہ شہر ہوگیا۔ کارخانہ میں مدد ختم ہوتے ہی امریا کے مزدوروں کو بھی سرکار نے برطرف کردیا۔ سیکڑوں آدمی بھوکے دربدر پھرنے لگے۔ جس کاجس طرف منھ سمایا بھاگ نکلا۔ انقلاب زمانہ سے چودھری گھسیٹے مہاراج اور شبراتی میاں جو کبھی زمیندار تھے اب غلام بن گئے۔ چودھری گھسیٹے کسی بنئے کے یہاں ملازم ہوگئے۔ مہاراج کا کام ان امیروں کی خوشامد اور ان کی خیرات پر چلنے لگا۔ شبراتی میاں کو ایک انگریز کے یہاں دس روپیہ ماہوار پر خدمت گاری کی جگہ مل گئی۔ ایک دن چودھری گھسیٹے مہاراج اور شبراتی میاں بیٹھے ہوئے اپنا پرانا زمانہ یاد کر رہے تھے۔ مہاراج گنیشی نے شبراتی میاں سے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ’’تم کو بکریدی بابا کی باتیں یاد ہیں‘‘ شبراتی نے کوئی جواب نہ دیا اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.