Jump to content

انقلاب

From Wikisource
انقلاب
by مجاز لکھنوی
304540انقلابمجاز لکھنوی

چھوڑ دے مطرب بس اب للہ پیچھا چھوڑ دے
کام کا یہ وقت ہے کچھ کام کرنے دے مجھے
تیری تانوں میں ہے ظالم کس قیامت کا اثر
بجلیاں سی گر رہی ہیں خرمن ادراک پر
یہ خیال آتا ہے رہ رہ کر دل بے تاب میں
بہہ نہ جاؤں پھر ترے نغمات کے سیلاب میں
چھوڑ کر آیا ہوں کس مشکل سے میں جام و سبو!
آہ کس دل سے کیا ہے میں نے خون آرزو
پھر شبستان طرب کی راہ دکھلاتا ہے تو
مجھ کو کرنا چاہتا ہے پھر خراب رنگ و بو
میں نے مانا وجد میں دنیا کو لا سکتا ہے تو
میں نے یہ مانا غم ہستی مٹا سکتا ہے تو
میں نے یہ مانا غم ہستی مٹا سکتا ہے تو
میں نے مانا تیری موسیقی ہے اتنی پر اثر
جھوم اٹھتے ہیں فرشتے تک ترے نغمات پر
ہاں یہ سچ ہے زمزمے تیرے مچاتے ہیں وہ دھوم
جھوم جاتے ہیں مناظر، رقص کرتے ہیں نجوم
تیرے ہی نغمے سے وابستہ نشاط زندگی
تیرے ہی نغمے سے کیف و انبساط زندگی
تیری صوت سرمدی باغ تصوف کی بہار
تیرے ہی نغموں سے بے خود عابد شب زندہ دار
بلبلیں نغمہ سرا ہیں تیری ہی تقلید میں
تیرے ہی نغموں سے دھومیں محفل ناہید میں
مجھ کو تیرے سحر موسیقی سے کب انکار ہے
مجھ کو تیرے لحن داؤدی سے کب انکار ہے
بزم ہستی کا مگر کیا رنگ ہے یہ بھی تو دیکھ
ہر زباں پر اب صلائے جنگ ہے یہ بھی تو دیکھ
فرش گیتی سے سکوں اب مائل پرواز ہے
ابر کے پردوں میں ساز جنگ کی آواز ہے
پھینک دے اے دوست اب بھی پھینک دے اپنا رباب
اٹھنے ہی والا ہے کوئی دم میں شور انقلاب
آ رہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوئے
آگ دامن میں چھپائے خون برساتے ہوئے
کوہ و صحرا میں زمیں سے خون ابلے گا ابھی
رنگ کے بدلے گلوں سے خون ٹپکے گا ابھی
بڑھ رہے ہیں دیکھ وہ مزدور دراتے ہوئے
اک جنوں انگیز لے میں جانے کیا گاتے ہوئے
سرکشی کی تند آندھی دم بہ دم چڑھتی ہوئی
ہر طرف یلغار کرتی ہر طرف بڑھتی ہوئی
بھوک کے مارے ہوئے انساں کی فریادوں کے ساتھ
فاقہ مستوں کے جلو میں خانہ بربادوں کے ساتھ
ختم ہو جائے گا یہ سرمایہ داری کا نظام
رنگ لانے کو ہے مزدوروں کا جوش انتقام
گر پڑیں گے خوف سے ایوان عشرت کے ستوں
خون بن جائے گی شیشوں میں شراب لالہ گوں
خون کی بو لے کے جنگل سے ہوائیں آئیں گی
خوں ہی خوں ہوگا نگاہیں جس طرف بھی جائیں گی
جھونپڑوں میں خوں، محل میں خوں، شبستانوں میں خوں
دشت میں خوں، وادیوں میں خوں، بیابانوں میں خوں
پر سکوں صحرا میں خوں، بیتاب دریاؤں میں خوں
دیر میں خوں، مسجد میں خوں، کلیساؤں میں خوں
خون کے دریا نظر آئیں گے ہر میدان میں
ڈوب جائیں گی چٹانیں خون کے طوفان میں
خون کی رنگینیوں میں ڈوب جائے گی بہار
ریگ صحرا پر نظر آئیں گے لاکھوں لالہ زار
خون سے رنگیں فضائے بوستاں ہو جائے گی
نرگس مخمور چشم خوں فشاں ہو جائے گی
کوہساروں کی طرف سے سرخ آندھی آئے گی
جا بجا آبادیوں میں آگ سی لگ جائے گی
توڑ کر بیڑی نکل آئیں گے زنداں سے اسیر
بھول جائیں گے عبادت خانقاہوں میں فقیر
حشر در آغوش ہو جائے گی دنیا کی فضا
دوڑتا ہوگا ہر اک جانب فرشتہ موت کا
سرخ ہوں گے خون کے چھینٹوں سے بام و در تمام
غرق ہوں گے آتشیں ملبوس میں منظر تمام
اس طرح لے گا زمانہ جنگ کا خونیں سبق
آسماں پر خاک ہوگی، فرق پر رنگ شفق
اور اس رنگ شفق میں باہزاراں آب و تاب!
جگمگائے گا وطن کی حریت کا آفتاب


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.