انس ہے خانۂ صیاد سے گلشن کیسا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انس ہے خانۂ صیاد سے گلشن کیسا
by تعشق لکھنوی
303927انس ہے خانۂ صیاد سے گلشن کیساتعشق لکھنوی

انس ہے خانۂ صیاد سے گلشن کیسا
ناز پرورد قفس ہوں میں نشیمن کیسا

ہم وہ عریاں ہیں کہ واقف نہیں اے جوش جنوں
نام کس شے کا گریبان ہے دامن کیسا

اپنی آزردہ دلی بعد فنا کام آئی
ڈھیر یہاں گرد کدورت کے ہیں مدفن کیسا

کہہ دیا بس کہ تری آہ میں تاثیر نہیں
یہ نہ دیکھا کہ یہ سینہ میں ہے روزن کیسا

چھٹ کے اس پھول سے برباد پڑے پھرتے ہیں
ہم تو اب طائر نگہت ہیں نشیمن کیسا

دل اسے دے کے چلے ملک عدم کو بے خوف
مال رکھتے نہیں اندیشۂ رہزن کیسا

دل بے تاب کی ہے سینۂ سوزاں میں صدا
اصل پارہ کی ہے کیا دانۂ گل خن کیسا

تھا کبھی دور اسیران قفس اے صیاد
اب تو اک پھول کی محتاج ہیں گلشن کیسا

چار دن میں یہ زمانہ بھی گزر جائے گا
ابھی روئیں گے جوانی کو لڑکپن کیسا

سخت جاں ہیں تری تلوار سے کیا خوف ہمیں
سختیٔ مرگ سے دبتے نہیں آہن کیسا

جل گئے صورت پروانہ تب عشق سے ہم
پھینک دے لاش اٹھا کر کوئی مدفن کیسا

ایک دن ابلق ایام کرے گا پامال
مجھ سے رہ رہ کے بگڑتا ہے یہ توسن کیسا

عشق سے کام نہ تھا حسن کی پروا بھی نہ تھی
یاد آتا ہے جوانی میں لڑکپن کیسا

کھیلتے ہو دل بے تاب سے پھولوں کی طرح
اور ہوتا ہے مری جان لڑکپن کیسا

شمع سے آپ کے سوزاں یہ سنا کرتے ہیں
کوئی محتاج کفن بھی نہ ہو مدفن کیسا

چاہتا ہوں کوئی دیکھے نہ تیری تیغ کے زخم
چشم جراح ہے کیا دیدۂ سوزن کیسا

نقش پا ہیں ہوس نام و نشاں خاک نہیں
ہم تو اٹھنے کے لیے بیٹھے ہیں مسکن کیسا

آندھیاں گرم جو چلتی ہیں مری آہوں سے
منہ چھپاتا ہے چراغ تہ دامن کیسا

سینہ اپنا ہے ہمارا دل سوزاں اپنا
شمع فانوس و چراغ تہ دامن کیسا

دور جب سے صفت برگ خزاں دیدہ ہے
یاد آتا ہے شب و روز وہ گلشن کیسا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse