امرود اور ملا جی
کسی قصبے میں ایک تھا امرود
بیسوں میں وہ نیک تھا امرود
پڑھنے جاتا تھا وہ نماز وہاں
آدمی اک نظر نہ آئے جہاں
خوف اس کو ہمیشہ رہتا تھا
آدمی کوئی مجھ کو کھا لے گا
شوق بولا کہ ایک دن جاؤ
کسی مسجد میں جا نماز پڑھو
چھوٹی سی مسجد اک قریب ہی تھی
تھے وہاں ڈٹ کے بیٹھے ملا جی
چپکے چپکے خدا کی لے کر آس
چل کے جا بیٹھا جوتیوں کے پاس
جوں ہی سجدے میں اس نے رکھا سر
آئے ملا جی اس طرف اٹھ کر
ایسے ملا ندیدے ہوتے ہیں
دیکھ کے کھانے ہوش کھوتے ہیں
حلوہ کھاتے ہیں نان کھاتے ہیں
جب ملے کچھ نہ جان کھاتے ہیں
جھپٹے اس پر پکڑ لیا امرود
چیخا چلایا رو پڑا امرود
کہا امرود نے کہ ملا جی
ہو اگر آج میری جاں بخشی
پھل کھلاؤں گا آپ کو ایسا
اچھا مجھ سے ہے ذائقہ جس کا
پھر کہا یہ کہ میرے ساتھ آئیں
جس جگہ میں کہوں ٹھہر جائیں
اک دکاں کے قریب آ کے کہا
آئیے دیکھیے ہے کیسا مزا
کیلا جلدی سے اک اٹھا لیجے
اور مسجد میں چل کے کھا لیجئے
مالک اس کا وہاں نہ تھا موجود
ملا موجود تھا خدا موجود
کیلا مسجد کے پاس لے کے چلے
چلتے چلتے وہ آخر آ پہنچے
کہا امرود نے نکالیے آپ
چھیل کر کیلا اس کو کھائیے آپ
لگے مسجد میں جانے جب کھا کر
آ گیا ان کا پاؤں چھلکے پر
وائے قسمت کہ آپ ایسے گرے
ایک گھنٹے سے پہلے اٹھ نہ سکے
موقع پاتے ہی چل دیا امرود
دے کے ملا کو جل گیا امرود
حرص کا خوب ہی مزا پایا
دودھ ان کو چھٹی کا یاد آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |