الجھا دل ستم زدہ زلف بتاں سے آج
Appearance
الجھا دل ستم زدہ زلف بتاں سے آج
نازل ہوئی بلا مرے سر پر کہاں سے آج
تڑپوں گا ہجر یار میں ہے رات چودھویں
تن چاندنی میں ہوگا مقابل کتاں سے آج
دو چار رشک ماہ بھی ہم راہ چاہئیں
وعدہ ہے چاندنی میں کسی مہرباں سے آج
ہنگام وصل رد و بدل مجھ سے ہے عبث
نکلے گا کچھ نہ کام نہیں اور ہاں سے آج
قعر بدن میں روح پکاری یہ وقت نزع
مدت کے بعد اٹھتے ہیں ہم اس مکاں سے آج
کھینچی ہے چرخ نے بھی کسی مانگ کی شبیہ
ثابت ہوئی یہ بات مجھے کہکشاں سے آج
اندھیر تھا نگاہ امانتؔ میں شام سحر
تم چاند کی طرح نکل آئے کہاں سے آج
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |