الا یا شاہ خوباں کیجیے شاد
الا یا شاہ خوباں کیجیے شاد
ہوئے جاتے ہیں عاشق غم سے برباد
ہمیں تم یاد ہو ہر لحظہ لیکن
ہماری بھی کبھی تو کیجیے یاد
گرفتار بلا بالائے تو یار
غم دوراں سے ہیں جوں سرو آزاد
اگر لیلیٰ ہے تو مجنوں ہیں ہم
وگر شیریں ہے تو ہم ہیں فرہاد
وہی ایراد کر سکتا ہے آخر
کیا ہے جس نے اول ہم کو ایجاد
کسی شے کو درست و چست دائم
نہ دیکھا در جہان سست بنیاد
شعر ہے اشک چشم و لخت دل سے
اٹھایا چاہئے ہم آب و ہم زاد
گل تر خار سے سمجھیں بتر تر
جو دیکھیں عندلیباں روتے صیاد
گلوئے گل تو پکڑے آخر کار
گئے کب رائیگاں بلبل کے فریاد
عبث کرتے ہو بہر ترک تکرار
عزیزو ہوں میں دخت رز کا داماد
نہیں جس روز میعاد آمد یار
وہی ہم جانتے ہیں روز میعاد
بہت فرزانہ تھے دیوانہ ہم کو
بنائے شوخ طفلان پریزاد
حمل مریخ معشوقوں نے میرا
کیا ہے سر جدا از تیغ بیداد
ہزاراں شکر ملک سندھ میں بھی
مرا مسکن ہے شہر حیدرآباد
جناب حیدر صفدر سے ماتمؔ
طلب اوقات مشکل میں کر امداد
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |