افشا ہوئے اسرار جنوں جامہ دری سے
افشا ہوئے اسرار جنوں جامہ دری سے
چھاپے گئے اخبار مری بے خبری سے
دم ناک میں آیا ہے اب اس نوحہ گری سے
دل پک گیا اے آہ تری بے اثری سے
کیا دن ہیں جو گل کھلتے ہیں شعلے ہیں دہکتے
لو چلتی ہے باغوں میں نسیم سحری سے
سونے کے نوالوں سے نہ کر پرورش روح
اتنی بھی محبت نہیں کرتے سفری سے
کب اہل دول سے ہوئی معبود پرستی
باطل ہے اگر سجدہ کریں تاج زری سے
ہر حال میں رہتی ہے خدا پر نظر اپنی
یہ مرتبہ حاصل ہے ہمیں بے ہنری سے
مغرور نہ ہو چاند سے رخسار پر اپنے
یہ قمقمہ روشن ہے چراغ سحری سے
تو وہ ہے شہ حسن اگر باج طلب ہو
لے حور سے گلدستہ طبق شاہ پری سے
منہ چڑھتے ہیں بد اصل تمیز ان کو نہیں ہے
دانتوں سے لڑی سلک گہر بد گہری سے
آنکھوں سے نکلوایے آنکھیں ہرنوں کی
چیتوں کی کمر توڑیئے نازک کمری سے
نوبت تو کہیں قتل گناہ گار کی آئی
نقارے بجاؤں گا میں تیروں کی سری سے
پشت لب شفاف سے جوبن ہے مسوں کا
سبزے نے نمو کی ہے عقیق شجری سے
پیری میں بھی ہم سے نہ ہوئی خانہ نشینی
باز آئے نہ بزموں سے نہ گزرے گزری سے
قد تیر سا تلوار تواضع سے ہوا ہے
وہ ہاتھ اٹھاتے نہیں بے داد گری سے
جب چاہو چلے آؤ یہ وعدہ نہیں اچھا
دل آنکھ چراتا ہے بہت منتظری سے
اب ضعف جنوں کوچۂ جاناں میں بہا دے
کب تک یہ ورم پاؤں پر آشفتہ سری سے
وہ چوٹ کلیجے میں لگی ہے کہ نہ پوچھو
تڑپوں گا تہ خاک بھی درد جگری سے
رونے کا نہ لے نام غم یار میں اے بحرؔ
الٹے نہ زمانے کا ورق لب کی تری سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |