اس نے افشاں جو چنی رات کو تنہا ہو کر
Appearance
اس نے افشاں جو چنی رات کو تنہا ہو کر
آسماں ٹوٹ پڑا مجھ پہ ستارہ ہو کر
بھوکیں محلوں پہ نہ منعم سگ دنیا ہو کر
ہڈیاں قبر میں رہ جائیں گی چونا ہو کر
وہ جلے تن ہوں مرے پر بھی جو مٹی میں ملوں
گرد باد اٹھنے لگیں آگ بگولا ہو کر
مے کشی میں جو ہوا چشم خماری کا خیال
رہ گیا جام ہتھیلی کا پھپھولا ہو کر
شادؔ یہ عشق زنخداں میں ہے دل ڈالوں ڈول
کود پڑتا ہوں میں ہر چاہ میں اندھا ہو کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |