Jump to content

اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے

From Wikisource
اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے (1905)
by مرزا آسمان جاہ انجم
317489اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے1905مرزا آسمان جاہ انجم

اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے
دم مرا سینے میں رکنے لگا آتے جاتے

خاک میں مجھ کو جو تم نے نہ ملایا نہ سہی
لاش ہی میری ٹھکانے سے لگاتے جاتے

تیرے دیوانوں کا دیکھے تو کوئی جوش و خروش
سوئے محشر بھی ہیں اک شور مچاتے جاتے

ہم تو سمجھے تھے کہ نالوں سے تسلی ہوگی
یہ تو ہیں درد میں درد اور بڑھاتے جاتے

ساتھ لینا تھا ہمیں بھی تجھے او پیک صبا
ہم بھی ہمراہ ترے ٹھوکریں کھاتے جاتے

تم نے کاندھا نہ دیا لاش کو میری نہ سہی
ایک ٹھوکر ہی مری جان لگاتے جاتے

یوں نہ جانا تھا انہیں پاس سے اٹھ کر انجمؔ
کوئی آفت ہی مرے سر پہ وہ ڈھاتے جاتے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A7%D8%B3_%D9%86%DB%92_%D8%A2%D9%86%DB%92_%DA%A9%D8%A7_%D8%AC%D9%88_%D9%88%D8%B9%D8%AF%DB%81_%DA%A9%DB%8C%D8%A7_%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%92_%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%92