Jump to content

اس مرگ کو کب نہیں میں سمجھا

From Wikisource
اس مرگ کو کب نہیں میں سمجھا
by غلام علی ہمدانی مصحفی
293822اس مرگ کو کب نہیں میں سمجھاغلام علی ہمدانی مصحفی

اس مرگ کو کب نہیں میں سمجھا
ہر دم دم واپسیں میں سمجھا

انداز ترا بس اب نہ کر شور
اے نالۂ آتشیں میں سمجھا

تب مجھ کو اجل ہوئی گوارا
جب زہر کو انگبیں میں سمجھا

اک خلق کی سر نوشت بانچی
اپنا نہ خط جبیں میں سمجھا

جوں شانہ کبھو تہہ پینچ تیرے
اے کاکل عنبریں میں سمجھا

کیا فائدہ آہ دم بہ دم سے
ہے درد دل حزیں میں سمجھا

پھر اس میں نہ شک نے راہ پائی
جس بات کو بالیقیں میں سمجھا

جب اٹھ گئی ضد تو ہر سخن میں
سمجھا تو کہیں کہیں میں سمجھا

موئے کمر اس کا کیا ہے اے عقل
سمجھا تو مجھے نہیں میں سمجھا

لکھی غزل اس میں مصحفیؔ جلد
جس کو کہ نئی زمیں میں سمجھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.