اس قدر ہم ناتوان و زار ہیں
اس قدر ہم ناتوان و زار ہیں
بازو اپنے مچھلیوں کے خار ہیں
چاک چاک اپنا گریباں ہو چکا
ان دنوں دست جنوں بے کار ہیں
روتے ہیں اشکوں کے بدلے خون گر
ابر ہیں ہم لیکن آتش بار ہیں
جاتے ہیں گلشن سے لے او باغباں
ہم اگر تیری نظر میں خار ہیں
آستیں سے پوچھیے کاہے کو اشک
اب تو منہ پر زخم دامن دار ہیں
دیکھ کر تجھ کو مگر حیراں ہوئے
آئنہ جو پشت بر دیوار ہیں
لے اڑ اے وحشت کہ اپنی پاؤں کے
منتظر خار سر دیوار ہیں
آنکھیں ہیں خونخوار تیری اے مسیح
کیا ہے بے پرہیز یہ بیمار ہیں
خود بخود اپنا جنازہ ہے رواں
ہم یہ کس کے کشتۂ رفتار ہیں
سایۂ خنجر میں آیا خواب مرگ
واہ کیا طالع مرے بیدار ہیں
ہم ہیں رنجور اپنے اشک و آہ سے
ہے بری آب و ہوا بیمار ہیں
اب تو ہے مینہ کا برسنا اپنے ہاتھ
آستینیں ابر دریا بار ہیں
سرو و شمشاد و صنوبر باغ میں
نقشہ ہائے قامت دل دار ہیں
کون ہے بیزار ان روزوں وزیرؔ
ہم جو اپنے زیست سے بیزار ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |