اس قدر بھی تو مری جان نہ ترسایا کر
Appearance
اس قدر بھی تو مری جان نہ ترسایا کر
مل کے تنہا تو گلے سے کبھی لگ جایا کر
دیکھ کر ہم کو نہ پردے میں تو چھپ جایا کر
ہم تو اپنے ہیں میاں غیر سے شرمایا کر
یہ بری خو ہے دلا تجھ میں خدا کی سوگند
دیکھ اس بت کو تو حیران نہ رہ جایا کر
ہاتھ میرا بھی جو پہنچا تو میں سمجھوں گا خوب
یہ انگوٹھا تو کسی اور کو دکھلایا کر
گر تو آتا نہیں ہے عالم بیداری میں
خواب میں تو کبھی اے راحت جاں آیا کر
اے صبا اوروں کی تربت پہ گل افشانی چند
جانب گور غریباں بھی کبھی آیا کر
ہم بھی اے جان من اتنے تو نہیں ناکارہ
کبھی کچھ کام تو ہم کو بھی تو فرمایا کر
تجھ کو کھا جائے گا اے مصحفیؔ یہ غم اک روز
دل کے جانے کا تو اتنا بھی نہ غم کھایا کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |