اس سے امید وفا اے دل ناشاد نہ کر
اس سے امید وفا اے دل ناشاد نہ کر
زندگی اپنی اس ارمان میں برباد نہ کر
گلۂ جور نہ کر شکوۂ بیدار نہ کر
ظلم سہنے کا مزا یہ ہے کہ فریاد نہ کر
خلوت دل ہے ترے آ کے ٹھہرنے کی جگہ
تیری مرضی اسے برباد کر آباد نہ کر
باغباں تاک میں ہے گھات میں صیاد ہے دیکھ
سیر گلشن ابھی اے بلبل ناشاد نہ کر
کچھ تڑپنے کا سسکنے کا مزا لینے دے
اتنی تعجیل مرے قتل میں جلاد نہ کر
اب مجھے طاقت پرواز نہیں اے صیاد
رہنے دے قید قفس سے مجھے آزاد نہ کر
اوپری دل سے سہی کچھ تو تسلی ہو جائے
صاف انکار سے ظالم مجھے ناشاد نہ کر
در محبوب تک اے بخت مجھے پہونچا دے
اور کچھ اس سے سوا تو مری امداد نہ کر
بے دھڑک جان سبھی اہل وفا دیتے ہیں
تو فقط مدحت جانبازئ فرہاد نہ کر
غم دل دار نے رگ رگ کا لہو چوس لیا
مجھ سے اب چھیڑ تو اے نشتر فولاد نہ کر
لاکھ دشوار سہی ضبط فغاں اے بلبل
مگر اک اف بھی تو بے مرضیٔ صیاد نہ کر
صدمۂ ہجر کے شکوؤں پہ وہ بولے شب وصل
گئی گزری ہوئی باتوں کو تو اب یاد نہ کر
اے دل اس شوخ کی تصویر تصور میں تو کھینچ
کام مانی سے نہ رکھ منت بہزاد نہ کر
آسیؔٔ بے سر و ساماں کو پڑا رہنے دے
اپنے کوچہ سے اٹھا کر اسے ناشاد نہ کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |