اس زلف سے دل ہو کر آزاد بہت رویا
Appearance
اس زلف سے دل ہو کر آزاد بہت رویا
یہ سلسلۂ الفت کر یاد بہت رویا
رحم اس کو نہ تھا ہرگز ہر چند بحال سگ
اس کوچے میں میں کر کر فریاد بہت رویا
مظلومی مری اور ظلم دیکھ اس بت کافر کا
رحم آیا ستم کے تئیں بے داد بہت رویا
دل غم سے نہ ہو خالی رونے سے مرا لیکن
تا ہو مرے رونے سے وہ شاد بہت رویا
اس عشق کی مجبوری ناصح پہ کھلی جب سے
کر منع محبت کا ارشاد بہت رویا
دیکھی نہ خدا ترسی اک گبر و مسلماں سے
ہر اک سے طلب کر کر میں داد بہت رویا
انجام محبت کا بوجھا تھا مگر اس کو
جب دل لگا شیریں سے فرہاد بہت رویا
ہے تازہ گرفتاروں کی فریاد کو کیا رقت
شب نالہ مرا سن کر صیاد بہت رویا
سنگیں دلی اس بت کی میں جس سے کہی حسرتؔ
ہر چند دل اس کا تھا فولاد بہت رویا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |