Jump to content

اس دل میں کر گزر جو یہ تیر آہ الٹے

From Wikisource
اس دل میں کر گزر جو یہ تیر آہ الٹے
by ثناء اللہ فراق
323725اس دل میں کر گزر جو یہ تیر آہ الٹےثناء اللہ فراق

اس دل میں کر گزر جو یہ تیر آہ الٹے
اک پل میں سب فلک کی یہ بارگاہ الٹے

مفتی و شحنہ قاضی ہیں کشتہ اس نگہ کے
پھرتے ہوں اس کے ہاتھوں یہ داد خواہ الٹے

عشاق کے دلوں کو ٹک میں الٹ پلٹ دے
مکھڑے سے گر دوپٹہ وہ رشک ماہ الٹے

پھرتی ہے یوں نگاہیں اس شوخ جنگجو کی
پامال کر کے جیسے کوئی سپاہ الٹے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.