Jump to content

اس بت کا انتظار کبھی ہے کبھی نہیں

From Wikisource
اس بت کا انتظار کبھی ہے کبھی نہیں (1895)
by رنج حیدرآبادی
324371اس بت کا انتظار کبھی ہے کبھی نہیں1895رنج حیدرآبادی

اس بت کا انتظار کبھی ہے کبھی نہیں
دل اپنا بے قرار کبھی ہے کبھی نہیں

اقرار بھی ہے وعدے سے انکار بھی اسے
ظالم کا اعتبار کبھی ہے کبھی نہیں

نفرت ہے ویسے گر تجھے انکار ہی سہی
یہ کیا کہ خواست گار کبھی ہے کبھی نہیں

اترائیں دل میں آپ نہ آئینہ دیکھ کر
یہ موسم بہار کبھی ہے کبھی نہیں

رغبت بھی ہے شراب سے نفرت بھی ہے مجھے
یہ چیز ناگوار کبھی ہے کبھی نہیں

یہ حال ہو گیا ہے کہ اس کے فراق میں
آنکھ اپنی اشک بار کبھی ہے کبھی نہیں

اک روز میرے پاس ہے اک روز ان کے پاس
دل کا بھی اعتبار کبھی ہے کبھی نہیں

اے رنجؔ کیا بتاؤں علاج اس کا کیا کروں
دل کو مرے قرار کبھی ہے کبھی نہیں


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.