اس بت نے گلابی جو اٹھا منہ سے لگائی
Appearance
اس بت نے گلابی جو اٹھا منہ سے لگائی
شیشے میں عجب آن سے جھمکے تھی خدائی
عالم میں نشے کے شب مہتاب نے تیرے
خورشید سے مکھڑے نے طلسمات دکھائی
گو غیر سے ملنے کی قسم کھاتے ہو پیارے
چھپتی نہیں وہ بات جو ہو دل سے بنائی
واللہ ہمیں عشق کی سب بھول ہوئی چال
کافر تری رفتار نے پھر یاد دلائی
ہر دم تو بھرا شیشہ جھکاتا ہے نشہ میں
ڈرتا ہوں کہ تیری نہ مڑک جائے کلائی
آئینہ نمو پوش ہوا عشق میں تیرے
چار ابروؤں کی لے کے فقیرانہ صفائی
ہم جھوٹ کہیں تو نہ ہو دیدار خدا کا
ہے روز قیامت تری اک شب کی جدائی
عاشق کو محبؔ سلطنت ہر دو جہاں ہے
گر یار کے کوچہ کی میسر ہو گدائی
This work was published before January 1, 1930, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |