ازدواج محبت
بچھڑے دوستوں سے بھی مل کے کیسی خوشی ہوتی ہے! بس خود آپ ہی اندازہ کر لیجئے۔ آخر کار آپ کا بھی تو کوئی دوست بچھڑ گیا ہوگا۔ اور پھر آپ سے اچانک آ ملا ہو گا۔ آپ ہی فرمائیے کیا شادی مرگ کا خوف نہیں ہو جاتا۔ میری بھی واللہ، ایک ہفتہ ہوا یہی کیفیت ہوئی۔ اتفاق سے ایک کام کے باعث میرا جانا علی گڑھ ہو گیا۔ میں کالج کے دیکھنے کا عرصہ سے مشتاق تو تھا ہی۔ اس موقعے کو غنیمت جانا اور ایک زائر کی حیثیت سے کالج کی سیر میں مصروف ہوا۔ ہر چیز کو عظمت اور محبت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور جس عمارت پر نظر پڑ جاتی اس میں محو ہوجاتاتھا۔ اس استغراق کی حالت میں اک نظر ایک صاحب پر بھی جا پڑی جو میری طرح محو نظارہ تھے۔ میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی ایسی ہی خاص کشش نہ ہوتی میں کالج سے آنکھ تھوڑا ہی اٹھانے والا تھا۔ لیکن ان پر نظر پڑتی تھی کہ میں اپنے گرد و پیش کی کل چیزوں کو بھول گیا اور بیتابانہ ان سے جا کر لپٹ گیا۔ اول تو وہ جھجکے لیکن پھر ایک استعجاب آمیز ’’تم کہاں؟‘‘ کہہ کے مجھ سے لپٹ گئے۔ اصلیت یہ تھی کہ ہم دونوں بچھڑے ہوئے کم و بیش تیرہ چودہ برس کے بعد ملے تھے۔ میں اس بات کو طول نہ دونگا کہ ہم دونوں کیسے جدا ہوئے تھے اور میں ان تیرہ چودہ برس میں کہاں کہاں رہا۔ مختصر یہ ہے کہ مجھ میں میرے دوست محمد نعیم میں بعدالمشرقیں رہا۔ اور ہم اس زمانے میں ایک دوسرے کے حالات سے بالکل بے خبر رہے۔ میں برما میں تھا، تو وہ انگلستان میں، اور وہ بھی ایک زائر بن کر علی گڑھ آئے تھے۔ محمد نعیم کو دیکھتے ہی کالج کی سیر کچھ وقت کے لیے موقوف ہوئی اور ایک دوسرے کے حالات دریافت ہونے لگے۔ آخرکار ان سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو دن بعد ہمیں ایسٹ انڈین ریلوے کی ڈاک گاڑی عظیم آبادی کی طرف لے جا رہی تھی۔ جہاں میرے دوست۔ محمد نعیم ایم ڈی ایل آر سی پی (کیوں کہ اب مجھے معلوم ہو اکہ اس عرصہ میں محمد نعیم انگلستان جا کر ایم ڈی ہو آئے تھے) کا مکان ہے۔
عظیم آباد پہنچتے ہی ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنی عالی شان اور بے نظیر کوٹھی میں اتارا۔ اور اسی روز اپنے کل احباب کی دعوت کی تاکہ مجھ سے ملائیں۔ دعوت کے بعد سب لوگ باہر چمن میں آ بیٹھے اور ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ آکر یکے بعد دیگرے سب رخصت ہو گئے اور ہم دونوں اکیلے رہ گئے۔
چونکہ گرمی کا موسم تھا، اس لئے رات کا وقت و چاندی رات صحن چمن اور ٹھنڈی ہوا ایسی چیزیں نہ تھیں کہ ہم میں سے کسی کا دل اٹھنے کو چاہتا۔ باہری کرسیاں ڈالے بیٹھے رہے۔ باتوں باتوں میں یہ ذکر آگیا کہ انسان کی زندگی میں ایسے دلچسپ واقعات نہیں ہوتے جن میں ناول کا مزہ آئے، میں اس بارے میں بہت بھرا بیٹھا تھا۔ میں نے ناول نویسوں پر نہایت لے دے شروع کی کہ کم بخت ایسی ایسی باتیں لکھتے ہیں کہ ہمیں رشک ہوتا ہے کہ ہماری زندگی میں کیوں ایسے واقعات پیش نہیں آتے۔‘‘ اور کیا اور کیابہت ہی کچھ کہہ ڈالا نعیم چپکا سنا کیا۔ صرف ایک آدھ جگہ مسکرایا۔ مجھے حیرت تھی کہ یہ کیو ں اپنی رائے ظاہر نہیں کرتے۔ خیز جب میں سب کچھ کہہ چکا تو نعیم نے ایک اور مضمون پیش کیا۔ کہنے لگے،
’’آج کل پردے کی بحث چھڑی ہوئی ہے، تمہاری اس کے متعلق کیا رائے ہے۔ جدید خیال ہو یا کہنہ خیال؟ کہنہ خیال ہو گے، کیوں کہ پردے کی مخالفت تو تم سے قیامت تک بھی نہیں ہونے کی۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’بے شک پردے کی مخالفت کون صاحب عقل کر سکتا ہے۔‘‘
’’تو پھر یہ شکایت بھی چھوڑ دیجئے کہ ہماری زندگی میں دلچسپی نہیں۔‘‘
’’اس کو پردے سے کیا تعلق؟‘‘
’’ایں تعلق ہی نہیں! جب تک پردہ ہے۔ عشقیہ شادی جس کے آپ اس قدر دل دادہ معلوم ہوتے ہیں ممکن ہی نہیں۔ وہاں تو یہ ہوتا ہے کہ بڑھے تو ماں باپ نے جہاں ان کا دل چاہا بیاہ دیا چوں و چرا کی گنجائش ہی نہیں اور ہو بھی تو کیا، نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ بات کر سکتے ہیں۔ شادی کیا ہوئی سرکاری نوکری ہوئی۔ جہاں سرکار کا دل چاہا، نوکر کو بھیج دیا۔ حاکم کو ماتحت کی خبر نہیں، ماتحت کو یہ معلوم نہیں کہ حاکم کیسا ملے گا۔ اس زندگی میں راز سر بستہ کیسے پیدا ہو سکتے ہیں اور افسانوں کا سلسلۂ راز آخر میں جا کر کھل کیسے سکتا ہے؟ یہ سب سچے عشق کی طفیل میں نصیب ہو سکتا ہے روپیہ کے لیے شادی مت کیجئے، بلکہ عشق کے لئے اور پھر میرا دعویٰ ہے کہ ایک ایک لفظ ناولوں کا آپ کو صحیح معلوم ہوگا۔ لیجئے میری ہی سرگذشت سنئے اور بتائیے کیا یہ ناول نہیں؟‘‘
یہاں نعیم یکا یک رک گیا، کچھ دیر تک متاثر حالت میں سگار کے دھوئیں کو دیکھا کیا، گویا نظر وہاں ہے اور خیال کہیں اور پھر کہنے لگا،
’’کیا اس سے بھی بڑھ کے کوئی افسانہ ہو سکتا ہے۔‘‘
میں نے بڑے اشتیاق سے کہا، ’’خداکے لئے سناؤ۔‘‘
’’سناؤں تو، مگر کیا میں سنا سکوں گا؟‘‘
’’میں نے ذرا چلا کے کہا، ’’للہ میرے اشتیاق کو مت بھڑکاؤ کہو تو۔‘‘
’’بھائی اصل یہ ہے کہ یہ سرگذشت ایسی نہیں (نعیم کی آواز یہاں رقت بھری تھی) کہ میں ٹھنڈے دل سے بیان کر سکوں مجھے معاف کرنا اگر کہیں وارفتگی کی حالت طاری ہو جائے۔ تمہیں یاد ہو گا کہ جب ہم تم کالج میں پڑھا کرتے تھے تو میں ہمیشہ ولایت جانے کی تمنا ظاہر کیا کرتا تھا۔ جب تم کالج چھوڑ کے چلے گئے، اس کے کچھ دنوں بعد، والد مرحوم مجھے ولایت بھیجنے پر راضی ہو گئے، حیدر آباد میں تو نوکر تھے ہی وہاں کوشش کر کے ریاست کی طرف سے مجھے بھجوایا۔ پانچ برس کی محنت شاقہ کے بعد بفضل خدا میں ایم ڈی ہو کر واپس آ گیا اور ریاست میں سول سرجن مقررکیا گیا۔ اس کے ایک سال بعد ہی والد ماجد کا سایہ میرے سر سے اٹھ گیا۔ والد مرحوم کی تمنا یہ تھی کہ میری شادی ان کی زندگی ہی میں ہو جاتی، مگر ہائے ایسے باپ کسے نصیب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کبھی مجھ پر خبر نہیں کیا، اور اس کو میری مرضی پر چھوڑ دیا۔ شادی کے بارے میں میرے خیالات اس وقت کچھ اور ہی تھے اور میں ان پر ہنستا تھا جو خواہ مخواہ شادی کر کے مصیبت میں پڑتے تھے اور اپنی آزادی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ میں کہتا تھا کہ اس سے بڑھ کر بھی کوئی غلطی نہیں ہو سکتی کہ جان بوجھ کر انسان اپنے پاؤں میں بیڑیاں ڈال لے، کیا معلوم تھا کہ تھوڑے دنوں بعد لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔ جو شفا خانے میری زیر نگرانی تھے ان میں سے تین چار زنانے شفا خانے بھی تھے اور یہ نہایت حیرت انگیز بات تھی کہ ان میں ایک ڈاکٹرنی مسلمان تھی لاہور میں تعلیم پائی تھی اور حیدرآباد مقرر ہو کر آئی تھی۔ چوں کہ یہ بالکل ایک نئی بات تھی اس لئے حیدرآباد میں اس مسلمان لیڈی ڈاکٹر کا شہرہ تھا۔ ہندوستانیوں کی بدگمانی! آپ جانیں یہ کسی کے حق میں کلمہ خیر تھوڑا ہی کہیں گے۔ کسی کو اس کی پاک دامنی میں شبہ تھا۔ کوئی کہتا تھا جانے کس رذیل قوم کی ہے۔ غرض کہ جتنے منہ اتنی ہی باتیں تھیں۔ لیکن اس کا حسن سب کو خیرہ کئے ہوئے تھا۔ کیوں کہ وہ پردہ بالکل نہیں کرتی تھی۔ مجھ کو اپنے عہدے کی حیثیت سے اکثر ملنے کا اتفاق ہوتا تھا۔ مگر اس رکھ رکھاؤ کی عورت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ چاہے اس مزاج کی سنجیدگی کہئے، یا غرور حسن خیال کیجئے، کچھ ہو۔ نتیجہ یہ تھا کہ کسی کی مجال نہ تھی کہ آنکھ بھر کر دیکھ سکے۔ کام اتنا عمدہ کہ کل ریاست کے زنانہ شفاخانوں میں اس کا شفا خانہ اول رہتا تھا۔ میرا یہ حال تھا کہ اگر کوئی کہیں اس کی ذراسی بھی برائی کرتا تو مجھے تاب نہ رہتی تھی میں کہتا کہ یہ پہلی مثال ہے کہ ایک مسلمان عورت نے ڈاکٹری امتحان پاس کیا اور وہ پہلی مثال بھی اتنی عمدہ ہے، پھر بھی اسے برا کہا جاتا ہے۔ غرض کہ میں لوگوں سے اس کی حمایت میں لڑا کرتا تھا۔ تھوڑے دنوں بعد مجھے معلوم ہوا کہ مجھے محض اس سے محبت ہی نہیں، عشق ہے، کیوں کہ روز بروز اس کا خیال دل میں گھر کرتا جاتا تھا۔ اس خیال کو جتنا میں ہٹانا چاہا اتنے ہی زیادہ زور سے وہ دل میں متمکن ہوتا گیا۔ میں اپنے دل سے کہتا تھا کہ، ’’دنیا کیا کہے گی، عزیز و اقارب کیا کہیں گے‘‘ دل کہتا تھا کہ ’’عشق میں ان باتوں کا کیا خیال؟ کیا یہ کافی نہیں کہ وہ شریف ہے، نیک ہے، لاکھوں میں انتخاب ہے، جب خدا اور رسول نہیں روکتے تو اور روکنے والا کون ہوتا ہے۔‘‘ میں انہیں خیالات میں مستغرق رہتا تھا اور کوئی تصفیہ نہیں کر سکتا تھا کہ مجھے معلوم نہیں کس طرح اور کس بے خودی کی حالت میں ایک دن میں اس سے یہ کہہ گیا کہ، ’’آپ کی شادی ہو گئی ہے اور اگر نہیں تو کیا آپ کی زوجیت کی عزت مجھے حاصل ہو سکتی ہے؟‘‘
اف! اس فقرے کا اثر اس پر کیسا ہوا ہے؟ چہرہ یکایک تمتما اٹھا، آنکھیں جو حسیات روح کی بے زبان ترجمان ہیں، پر غضب ہو گئیں اور نہایت غصہ بھری آواز سے اس نے مجھے جواب دیا،
’’جناب میں نہیں جانتی آپ کیا ارشاد فرما رہے ہیں۔ آپ میرے افسر ہیں، مجھے آپ سے اس قسم کی باتوں کی امید نہ تھی۔‘‘
بجائے اس کے میں اس جواب سے اپنے ہوش میں آتا نہ معلوم وہ کیا بات تھی کہ جس نے مجھے اور بے خود کر دیا اور بیتاب ہو کر نہایت عاجزی سے التجا کرنے لگا۔ اس دن مجھے یقین ہوا ہے کہ،
عشق اول در دل معشوق پیدا میشود
گر نہ سوز دشمع کے پروانہ شیدا میشود
جب میں اپنی جنوں آمیز گفتگو ختم کر چکا تو مجھے یقین تھا کہ شاید اس وقت عتاب کی انتہا نہ رہے گی۔ لیکن میرے نصیب کہ اس نے نہایت آہستگی سے کہا،
’’خود آپ خیال کیجئے کہ میں ایک معمولی درجے کی عورت ہوں آپ اللہ رکھے، اتنے بڑے عہدے پر ہیں کہاں میں، کہاں آپ، مجھے یقین ہے کہ جب آپ اپنی کوٹھی پر جائیں گے تو آپ کہیں گے کہ لاحول ولا قوۃ مجھ سے بھی کیا بیہود گی ہوئی ہے ایک ادنیٰ درجے کی عورت سے کیا کیا باتیں کہی ہیں، اس لئے مجھے میرے حال پر رہنے دیجئے۔‘‘
یہ جواب شاید تمہارے نزدیک مایوسی دلانے والا ہو، مگر مجھ پر تو اس نے الٹا اثر کیا۔ میں گھر گیا تو ان خیالات میں کمی کیسی الٹا میں کسی کام کے قابل نہ رہا۔ اٹھتے بیٹھتے، یہی دھن تھی کہ وہ کسی طرح میری التجا کو قبول کرے۔ میری یہ حالت کہ ضرورت ہو یا نہ ہو، اس کے شفا خانے کا معائنہ ضرور کرتا، اور کسی نہ کسی طرح عرض حال کرتا، کچھ عرصے کے بعد میں نے دیکھا کہ رفتہ رفتہ اس کی پہلی بھڑک میں بھی کمی ہوتی گئی اور قصے کو طول کیا دوں ایک دن وہ آیا کہ میں اور وہ دولہا اور دلہن ہو گئے۔ لیکن میری اور قمرالنساء (یہ اس کا نام تھا) کی شادی کوئی معمولی بات نہ تھی۔ حیدر آباد بھر میں اس کا چرچا ہوا۔ اگرچہ ہم نے سادے طور پر شادی کی تھی مگر اپنی اپنی قسمت ہے کوئی ہزاروں روپیہ خرچ کرتا ہے اور دھوم دھڑکے سے بیاہ رچاتا ہے، تاہم شہرت اس کی عشر عشرا بھی نہیں ہوتی جو ہماری غریبی کی شادی کی ہوئی، مگر جو سنا تھا کانوں پر ہاتھ دہرتا تھا، ہم پر لعن طعن کرتا تھا۔ ہم عیش سے زندگی بسر کرتے تھے، کیا خبر تھی کہ ہم پریوں ظلم ہوگا،
ڈرتا ہوں آسمان سے بجلی نہ گر پڑے
صیاد کی نگاہ سوئے آشیاں نہیں
دشمنوں نے ہمارے افسر بالا کے کان بھرے اور ایک دن مرگ مفاجات کی طرح ہمارے پاس یہ حکم آیا دونوں حدود ریاست سے باہر ۴۸ گھنٹے میں نکل جائیں۔ ہم کرہی کیا سکتے تھے۔ سنگ آمد و سخت آمد ہم اپنے قلیل التعداد ہمدردوں کی افسوس اور ٹڈی دل دشمنوں کی خوشیوں میں حیدرآباد سے رخصت ہوئے۔ قمرالنسا نے مجھ سے آبدیدہ ہو کر کہا۔ ’’دیکھا! میری وجہ سے تم پر یہ مصیبت نازل ہوئی۔‘‘ لیکن مجھے بخدا، ذرا بھی جو اس کا خیال ہو کہ مجھ پر یہ مصیبت ہے میں اپنے تئیں دنیا میں سب سے بڑا خوش قسمت سمجھتا تھا کیوں کہ میری قمرالنساء میرے ساتھ تھی۔ میں حیدرآباد سے سیدھا لکھنو پہنچا اور یہاں میں نے اپنا مطب جاری کر دیا۔ سچ کہا ہے کہ مصیبت تنہا نہیں آتی۔ حیدرآباد سے یوں نکلا، یہاں پہنچ کے بالکل نا امیدی ہو گئی۔ کئی مہینے گزر گئے اور آمدنی عنقا! اور ایک دم چلتی بھی کس کی ہے؟ یہ تو ایک سودا گری ہے۔ ظاہری ٹیپ ٹاپ جب تک نہ ہو کون آتا ہے؟ اور میرے پاس کیا تھا؟ جب حیدرآباد میں رہا کبھی کچھ پس انداز ہی نہ کیا، جس کا خمیازہ اب بھگتنا پڑا۔ کہتے ہوئے شرم آتی ہے مگر کہنا ہی پڑتا ہے یہ حالت ہو گئی تھی کہ ایک ماما تک رکھنے کی مقدرت نہ رہی۔ قمرالنساء بیچاری سارے کام گھر کے کرتی تھی اور جب میں گھر میں آتا تو نہایت خندہ پیشانی سے کہتی کہ،
’’کھانا پکانا اور گھر کا کام کرنا مجھے بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ اس کا یہ کہنا گو وہ دل سے ہی ہوتا تھا، مجھ پر تیر کا کام کرتا تھا میں کہتا تھا کہ، ’’ہائے میں کمبخت ہی تو اس بیچاری پر ان مصیبتوں کے پڑنے کا باعث ہوا ہوں۔‘‘
خدا کی شان اسی زمانے میں قمرالنساء امید سے ہو گئی اب تو مجھے بے حد فکر ہو گئی۔ ہروقت یہ خیال کہ ایسے ایسے سخت کام کرتی ہے۔ کہیں جھٹکا وٹکا آ جائے تو اور مشکل آ پڑے اسی فکر میں رات دن گھلتا تھا اور کچھ نہ کر سکتا تھا۔ میرا کوئی رشتہ دار بھی نہ تھا کہ جس کے ہاں جا پڑتا اور قمرالنساء بھی کہتی تھی کہ ’’میں یتیم اور بالکل بے دالی وارث ہوں۔‘‘ لیکن ایک دن خود ہی اس نے کہا کہ ’’پٹنہ میں میرے ایک دور کے رشتہ دار ہیں، شاید وہ زندہ ہوں، چلو وہیں چلیں۔‘‘ مجھ کو اس بات کا خیال کرتے بھی شرم آتی تھی کہ میں ان کے یہاں جا کے پڑوں گا، لیکن کیا کرتا، قمرالنساء کی جان بھی پیاری تھی۔ گیا، مگر بادل ناخواستہ۔ جب ہم پٹنہ پہنچے، تو قمرالنساء پتا پوچھتی ہوئی ایک نہایت معمولی درجے کے مکان میں مجھے لے گئی۔ دروازہ کھٹکھٹانے پر، ایک بزرگ صورت باہر آئے۔ قمرالنساء کو دیکھتے ہی متعجب ہوئے پھر خوشی خوشی گھر میں لے گئے۔ گھر میں ایک بڑی بی تھیں، جو ہم دونوں پر صدقے ہوئیں اور قمرالنساء سے کہنے لگیں کہ، ’’میری بھانجی! تمہیں تو ہم مردہ خیال کر چکے تھے۔‘‘ دو تین دن میں یہاں رہا۔ ایک دن قمرالنساء کے خالو، ہمارے میزبان نے مجھ سے کہا،
’’یہاں ایک نواب صاحب ہیں، میں ان کی سرکار میں نوکر ہوں چلئے آپ کو بھی ان سے ملاؤں۔‘‘ پھر ایک نہایت عالیشان کوٹھی میں مجھے لے گئے اور گول کمرے میں بٹھا کے کہا کہ ’’تم یہیں بیٹھے رہنا، میں ابھی آتا ہوں، نواب صاحب بھی اس وقت تشریف لائیں گے محل میں ہیں۔‘‘
میں اکیلا بیٹھا رہا، کوٹھی کی ایک ایک چیز کو دیکھتا تھا اور عش عش کرتا تھا، لیکن ایک بات سے حیرت تھی، ساری کوٹھی میں سناٹا تھا، میں ایسی حالت میں تھا کہ یکایک سامنے کا دروازہ کھلا اور شاہزادیوں کے لباس میں ملبوس ایک خاتون کمرے میں داخل ہوئی۔ میں جھجک کے چاہتا تھا کہ کمرے سے باہر نکل جاؤں اور اس خیال سے میں باہر کی طرف لپکا بھی کہ اس خاتون نے کہا،
’’پیارے نعیم۔‘‘ پھر کر جو غور سے دیکھتا ہوں تو میری پیاری قمرالنساء بادشاہزادی بنی کھڑی ہے۔ بے ساختہ میری زبان سے نکل گیا،
’’میں خواب دیکھ رہا ہوں یا میری آنکھیں دھوکا دے رہی ہیں۔‘‘
قمرالنساء نے ہنس کے کہا، ’’نہیں تم جاگتے ہو، اور میں ہی تمہاری قمرالنسا ہوں۔ اللہ اللہ مجھے تم پہچانتے بھی نہیں (پھر میری طرف بڑھ کے اور گلے میں باہیں ڈال کے) خدا کا شکر ہے کہ ہماری مصیبتیں دور ہوئیں میرے پاس بڑی ریاست ہے اور ہم اب عمر بھر یہیں رہیں گے۔‘‘
میں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا ’’تو تم نے حیدرآباد میں نوکری کیوں کی تھی؟‘‘ ’’سب بتاتی ہوں، بے صبر کیوں ہوئے جاتے ہو۔ میرے والد مرحوم، نہایت روشن خیال آدمی تھے، انہوں نے میری تعلیم نہایت اعلی درجے کی کی تھی اور کہتے تھے کہ اولاد کو تعلیم دنیا بس یہی والدین کا فرض ہے۔ سوائے میرے ان کے کوئی اولاد نہ تھی، اور خدا کی مرضی یہ ہوئی کہ میرے بارھویں سال میں، اللہ بخشے ابا کا سایہ میرے سر سے اٹھ گیا۔ ساری جائداد کی میں ہی مالک ہوئی۔ میں نے اپنے سرپرست سے کہا کہ میں ڈاکٹری پڑھوں گی۔ چنانچہ میں ہور بھیجی گئی، وہاں سے آئی تو بڑے بڑے گھرانوں سے میرے لئے پیغام آئے، مگر میں نے دل میں ٹھان لی تھی کہ جب تک کوئی مجھے صرف میرے لئے بیاہے گا، میں کسی سے شادی نہ کروں گی۔ اس لئے غریب بنی اور حیدرآباد گئی اور صدقے اس کی کریمی کے کہ اللہ نے تم جیسا پیارا خاوند مجھے دیا، جس نے مجھے میری دولت کے لئے نہیں بیاہا، بلکہ صرف میرے لئے ساری دنیا مجھے بر کہتی تھی، میری طرف سے بدگمان تھی، پھر بھی (میرا بوسہ لے کر) تم نے مجھ سے شادی کی اور میں نے تمہارے ساتھ ساری مصیبتیں جھیلیں، صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا تمہیں مجھ سے اصلی محبت ہے یا اکتا جاؤ گے۔ اپنی کوٹھی پر میں برابر حالت لکھتی رہتی تھی، اس وجہ سے خالو کو سب حال معلوم تھا۔‘‘
اس کے بعد ہم ہنسی خوشی رہنے لگے۔
یہ کہہ کے نعیم رکا اور پھر بھرائی ہوئی آواز سے کہنے لگا۔ ’’مشیت ایزدی میں کس کو دخل ہے۔ آٹھ سال بعد، اللہ نے قمرالنساء بھی مجھ سے چھین لی۔ اب وہ جنت میں ہے اور میں یہاں زندگی کے دن پورے کر رہا ہوں۔ ایک اس کی یادگار ہے اور وہی میری زندگی کا سہارا ہے۔ یعنی میری پیاری بیٹی نجم النساء جو ہمارے پٹنے آنے کے پانچ مہینے بعددنیا میں آئی تھی۔ اللہ اسے جیتا رکھے۔ میری طبابت بھی یہاں خوب چمکی اور اب میری ذاتی جائدادبہت کچھ ہے۔ اس لئے میرا ارادہ ہے کہ قمرالنساء کی جائداد کسی کا رخیر کے لئے وقت کردوں۔
عزم یہ ہے کہ کل جائداد عورتوں کی تعلیم کے واسطے وقف کر دوں۔ جب محمڈن یونیورسٹی بنے تو ایک کالج خاص طور پر مسلمان خاتونوں کے لئے تیار کیا جائے۔ ایک لاکھ کی جائداد ہے۔ میرے خیال میں کالج کے ابتدائی اخراجات کے لئے کافی ہوگی۔ تمہاری کیا رائے ہے۔‘‘ میں نے تو کہا، ’’ضرور واللہ ضرور۔ خدا تمہارے ارادے میں برکت دے۔ کل قوم احسان مند ہو گی، مگر شب بخیر، نیت شب حرام۔ چلئے رات بہت آئی ہے۔ لو ایک بج گیا اب چل کے سونا چاہیے۔‘‘
یہ کہہ کے ہم کوٹھی میں داخل ہوئے۔ اب کوٹھی کی ایک ایک چیز مجھے عجیب معلوم ہوتی اور میرے دل پر عجیب اثر ڈالتی تھی۔
ہے یوں کہ،
کسی کا ہور ہے آتشؔ کسی کو کررکھے
دو روزہ عمر کو انسان نہ رائگاں کاٹے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |