Jump to content

اردو لٹریچر کا نفس واپسیں

From Wikisource
اردو لٹریچر کا نفس واپسیں
by مہدی افادی
319489اردو لٹریچر کا نفس واپسیںمہدی افادی

اگر اردو لٹریچر کی ارتقائی تاریخ جہاں تک نثر سے تعلق ہے کبھی لکھی گئی تو جو مرقع دفعتاً آنکھوں کے سامنے آئے گا وہ طبقۂ اول کے لکھنے والے ہوں گے جن کو میں نے ’’عناصر خمسہ‘‘ کی حیثیت سے کہیں دکھایا ہے اور جو سرسید کے زمانہ سے پیدا ہوئے۔ آزاد کی زبردست شخصیت گو ایک حد تک سرسید کی تبلیغ سے بے نیاز معلوم ہوتی ہے، لیکن یہ کیا کم ہے کہ ہم عصری کی عزت ان کو بھی حاصل تھی اور مذاق سخن کے لحاظ سے وہ ادھر جھک پڑے جو سرسید کے لٹریچر کا خاصۂ امتیازی تھا۔ نذیر احمد جس حد تک مستغنی رہ سکے ان کے خیالات ومقالات کا بہت بڑا حصہ خود اس فیصلہ کے لئے کافی ہے، رہے حالیؔ وشبلی، کچھ شک نہیں کہ یہ تمام تر سرسید کے پیدا کردہ ہیں۔

میں اس وقت طبقۂ ثانی کے اہل قلم سے قطع نظر کئے لیتا ہوں جو میرے دائرہ تحریر کے موضوع سے الگ ہیں، ورنہ اردو لٹریچر جب تک باقی ہے، ریاضؔ، احمد علی شوقؔ، شررؔ اور سرشارؔ ہمیشہ محبت آمیز عزت کے ساتھ یاد کئے جائیں گے۔ موجودہ لٹریچر کی خلاقی میں یہ داہنے ہاتھ نہ سہی بائیں ہاتھ کی حیثیت قطعاً رکھتے ہیں، آج ریاضؔ اور شوقؔ کی لطافت نثر گذشتہ تاریخ کا ایک بھولا ہوا سبق ہے، لیکن کل کی بات ہے جب یہ دونوں اپنے وقت کے بہترین پرچوں میں داد سخن دے رہے تھے۔ آئندہ دنیا ان کو زیادہ سے زیادہ مٹی ہوئی شاعری کی حیثیت سے جانے گی، لیکن سچ یہ ہے کہ نظم کے ساتھ یہ نثر کے بھی ’’آقا‘‘ تھے۔

دونوں جوان تھے، جو بنوں پر آئی ہوئی زبان بھی پری بنی ہوئی تھی۔ ’’صحافت‘‘رہ رہ کر جنبش قلم کی بلائیں لیتی تھی، عورت کیسی ہی نازک ہو لیکن چھڑوں کی دھیمی آواز میں جو کیفیت ہے اونچی ایڑی کے بوٹ کی کھٹ کھٹ میں نہیں، آج کل کی کھڑی اردو کے مقابلہ میں ان کی زبان میں ایک خاص لچک اور نزاکت تھی، شستہ، رفتہ، محاورات کی برجستگی اور موقع موقع سے روز مرہ کی پیوندکاریاں کس طرح دکھاؤں، دل کی بے چینی سطح کاغذ پر پھیلتی جاتی ہے، لیکن حق ادا نہیں ہوتا۔ مختصر یہ کہ جس طرح دل نہیں رہے، دلوں کے اکسانے کا سامان نہیں رہا۔ زمانہ کی ترقی کے یہ معنی ہیں کہ بعض اجزا ساتھ ہی ساتھ اس طرح مٹتے گئے کہ بجھے ہوئے چراغوں کی طرح کہیں پڑے ہیں، لیکن جو آنکھیں برقی خیرہ گری کی عادی ہورہی ہیں انھیں فرصت وذوق کہاں کہ ایک نگاہ ادھر بھی ڈالیں۔ شررؔ وسرشارؔ کی نسبت کچھ کہنا نہیں چاہتا کہ یہ اپنی بقا کے آپ ضامن ہیں، یعنی ایسی لائق رشک ہستیاں رکھتے ہیں جو مرنے کے بعد بھی فنا ہونے والی نہیں۔

میں پھر سلسلہ سے علیحدہ جا پڑا، ہاں تو کہنا یہ تھا کہ طبقۂ اول کی پاک روحوں نے جو سرمایہ ہمارے لئے چھوڑا ہے وہ کتنا ہی لائق ادب ہو، لیکن سوال یہ ہے ان کے مرتبہ کے لحاظ سے اس کی کیا حالت ہے، یعنی ہرمصنف نے اپنی تصنیفات میں کہاں تک اپنا درجہ قائم رکھا؟

یادش بخیر، شبلی کے سوا مجھے خوف ہے، سب کم و بیش وہ نہیں کر سکے جو ان کی قابلیت کا بہترین مصرف تھا۔ پروفیسر آزادؔ کی فارسیت اہل زبان سے دبتی ہوئی نہیں تھی لیکن وہ اپنی نہایت قیمتی تالیف یعنی ’جامع اللغات‘ کی تکمیل نہ کرسکے جو ان کی ساری عمر کی کمائی تھی، اسی طرح ’’تذکرۂ شعرائے فارسی‘‘ بھی جو خاص ان کے مذاق کی چیز تھی، مسودہ سے آگے نہ بڑھ سکا۔

مولانا نذیر احمد کو اپنی اعلیٰ درجہ کی عربیت کے ساتھ ’’قاموس الاسلام‘‘ (انسائیکلو پیڈیا) کے لکھنے کا خیال نہ آیا، وہ اس پیمانہ کو گھٹا کر کم سے کم ’’لغات الاسلام‘‘ لکھ سکتے تھے اور یہ پھر بھی ایسی چیز ہوتی کہ یورپ اپنی فلسفیانہ تحقیق و تدقیق کے ساتھ ان سے آگے نہیں جاسکتا تھا، آئندہ نسلوں کے لئے یہ قیمتی وراثت موصوف کی باقی رہنے والی یادگاروں میں سب سے زیادہ پیش پیش ہوتی۔

حالیؔ، خوش صفات حالیؔ سے ہم کو چنداں شکایت نہیں، ’’مسدس‘‘ کے بعد ’’مقدمۂ دیوان‘‘ اور ’’حیات جاوید‘‘کے سوا اگر یہ کچھ نہ لکھتے تو ان کی بقا کے لئے اس سے زیادہ ضرورت نہیں تھی، گو اس کا افسوس ہے کہ ان کی صحت اور عمر نے موقع نہ دیا کہ ان کی وسیع المشربی اور فلسفیانہ نکتہ سنجیاں ان کے نتائج افکار کی تعداد میں کچھ اور اضافہ کرتیں، جس کی اس لئے زیادہ ضرورت تھی کہ ان کے بعد ان کے رنگ میں کوئی قلم اٹھانے والا معلوم نہیں ہوتا۔

خاتم المصنفین شبلی نے ہمارے لئے کم وبیش ۵ ہزار صفحوں کا ذخیرۂ ادب چھوڑا ہے، یہ لٹریچر کی وہ قیمتی صنف ہے جسے آج کل کی اصطلاح میں ’’تنقیدات عالیہ‘‘ (ہایر کریٹی سزم) کہتے ہیں، آپ لوہے کے چنے کہئے،، اور میرا خیال ہے اسلام کے متعلقات میں اتنا بڑا سرمایہ اور وہ بھی اس قدر گراں مایہ کسی زبان میں موجود نہیں ہے، شبلی میں ایک خاص طرح کا مادۂ اختراعی تھا۔

وہ ایک ہی وقت میں اعلیٰ درجہ کے مؤرخ، اعلیٰ درجہ کے ناثر، اعلیٰ درجہ کے شاعر، غرض مشرقی زبان میں مختلف اصناف سخن کے پورے مالک تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ یورپ کے مستشرقین کی طرح ان کا معیار تصنیف اتنا بلند تھا کہ میرا خیال ہے کہ سیکڑوں برس بعد بھی ان کی تصنیفات ٹکسال باہر نہیں ہوں گی، ایسا جامع حیثیات مصنف غالباً اب پیدا نہیں ہوگا، ان کے تفصیلی کارنامے انشاء اللہ ’’دار المصنفین‘‘ دکھائے گا لیکن مرحوم نے سب کچھ کیا، آنحضرتؐ کی لائف کی تکمیل نہ کر سکے جس کا داغ ہمارے ساتھ وہ بھی لیتے گئے، اسی طرح مسلمانوں کی عام تاریخ نہ لکھی جس کی سخت ضرورت تھی، نہ ’’شعر العجم‘‘ کی طرح عربی لٹریچر کی تاریخ لکھنے کی نوبت آئی اور سلسلے بھی نام تمام رہے، جن کی تکمیل اب قیامت تک ہو چکی!

بات یہ ہے کہ جب ہمارے ہاں محرکات میں اس کے سوا کچھ نہ ہو کہ ’’ہرفعل خود اپنی مکافات ہے۔‘‘ تو ان اساتذہ سے جو کچھ ہمیں ہاتھ آیا وہ بھی ہمارے استحقاق سے کہیں زیادہ تھا۔

علی گڑھ ایک تاریخی قوم کی مرکزیت کا مدعی ہے، لیکن لاکھوں روپیہ خرچ کرنے کے بعد بھی قوم نے کوئی دائرۃ التالیف قائم نہیں کیا، نہ ان عناصر کو جن کے نام بار بار گناتا رہتا ہوں، وہ کبھی تصنیف و تالیف کے لئے ایک جا کر سکا، اردو لٹریچر کا اطلاق صحیح معنوں میں صرف انھیں حکمائے ادب کی دماغی پیداوار پر ہو سکتا ہے، اگر آپ کو اس سے اتفاق نہ ہو تو اسے اپنی قاصر النظری اور قوم کی ’’شامت اعمال‘‘پر محمول کیجئے، جس کو اتنا بھی احساس نہیں کہ تصنیفی دور آخری تاجدار سخن یعنی شبلی کے ساتھ ہمیشہ کے لئے پیوند خاک ہو گیا۔

سب تو سب، حیدرآباد سی شائستہ ریاست کو یہ خیال نہ آیا کہ سید علی آزادؔ، نذیر احمد اور حالیؔ و شبلی کو جن میں آزاد کے سوا سب اس کے خوان نعمت کے خوشہ چیں تھے، صرف تصنیف و تالیف کے لئے وقف کردیا جائے۔ یہ لوگ معقول وظیفوں پر ایک جگہ رکھے جاتے اور یہ طے کیا جاتا کہ لٹریچر کی فطری ضروریات کے لحاظ سے کون کون کام ترتیباً زیادہ اہم ہیں اور ان پر عالمانہ کتابیں لکھوائی جاتیں۔ سید علی سا ہمہ داں جہاں موجود ہو، وہاں ’’اکبری نورتن‘‘ کی طرح ’’پنجتن آصفی‘‘ کا عالم موجود میں نہ آنا ایک ایسی بدنصیبی ہے جس کی تلافی اب کبھی نہیں ہوسکتی۔ ’’سلسلہ آصفیہ‘‘ اگر برائے نام نہ ہوتا اور فرمانروائے وقت کو کچھ بھی دلچسپی ہوتی تو دنیا دیکھ لیتی کہ ’’عہد عباسیہ‘‘ جہاں تک ادبی فتوحات کا تعلق ہے، نئے سرے سے واپس آ گیا ہے، لیکن گذری ہوئی بات کا رونا کیا، میں پھر یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ملک کا تصنیفی دور ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا، بیشک کتابیں آئندہ بھی لکھی جائیں گی، لیکن میری غرض ردیات سے نہیں، اعلیٰ لٹریچر سے ہے جس کی فصل ایک دم سے ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی۔

ثبوت لیجئے! علی گڑھ کالج ۴۰ سالہ جد وجہد کے بعد ایک مصنف بھی اس وقت تک نہ پیدا کر سکا۔ آپ جانتے ہیں یہ کس بات کی پھٹکار ہے؟ نری انگریزی دانی سے خواہ وہ کسی پایہ کی ہو، مشرقی طبائع میں مادہ نہیں ہوتا، لڑکوں کو یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ انگریزی سے پہلے یا ساتھ ساتھ عربی فارسی کی تحصیل کر سکیں جس پر ان کی مادری زبان کی ترقی کا انحصار ہے، زبان عربی میں کتنی ہی دستگاہ ہو لیکن اس طرح لکھنا پڑھنا مشکل ہے کہ اہل زبان کو اس میں لطف آئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ انگریزی ٹکسالی ہونے سے رہی، اردو میں یہ اظہار خیال کرنا نہیں چاہتے، یا صاف کیوں نہ کہوں ان کو آتی ہی نہیں اور چونکہ اردو لٹریچر سے بیگانگی کو یہ اپنا شرف امتیازی سمجھتے ہیں، اس لئے ان کے ہاتھوں ابھی مدتوں ہم کو اردو ادب میں کسی اضافہ کی امید نہیں کرنی چاہئے۔ اگر یہ صحیح ہے کہ کوئی قوم دنیا میں اپنے مجموعہ خصائص سے علیحدہ ہوکر ترقی نہیں کرسکتی تو صرف یہی نہیں کہ آج کل کے نوجوانوں کے لئے مادری زبان کا رونا ہے بلکہ ایک وسیع حد تک ان کے مستقبل کی طرف سے بھی مایوسی ہے۔

یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ جو بساط ابھی دیکھتے دیکھتے اٹھ گئی، یعنی لٹریچر کے جو حقیقی مالک تھے، وہ قریب قریب سب ایسے تھے جنھیں مشرقی تعلیم نے پیدا کیا تھا اور جن کو ’’مغربیت‘‘ کچھ یونہی سی چھو گئی تھی، لیکن ان کی قوت اجتہادی کا مظہر وہ معرکۃ الآرا سرمایۂ ادب ہے جو ورثہ میں وہ ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں۔ بہرحال نوجوان طبقہ کی بیگانہ وشی بہت ہی لائق افسوس ہے، لیکن دنیا میں کوئی کلیہ نہیں جس میں استثنا نہ ہو۔ میں دیکھتا ہوں اس طبقہ میں ایک شخص ایسا پیدا ہو گیا ہے جو اور وں کی ناک رکھ لےگا۔ میری غرض لائق عبدالماجد سے ہے جو انگریزی کی تکمیل کے ساتھ اردو لٹریچر کا نہایت صحیح مذاق رکھتے ہیں اور آج ان کے قلم کے سایہ میں دو فلسفیانہ کتابیں ایسی موجود ہیں جن پر ادب اردو ناز کر سکتا ہے، چونکہ شروع ہی سے پیمانہ تصنیف اونچا اختیار کیا گیا ہے اس لئے آئندہ ہم کو ان سے بہت سی توقعات ہیں، میں ابھی زیادہ کھلنا نہیں چاہتا کیونکہ ان کو نظر بد کے اثر سے بچانا ہے۔

شبلی کا مطمح نظر ایسی ہی تعلیم تھی جس میں انگریزی کے ساتھ مشرقی زبانوں کی بھی تکمیل ہو اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ’’دار المصنفین‘‘ جو چند نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے، مرحوم کے خیالات کی تصویر مرئی ہے، جس قابلیت کے ساتھ مولوی سلیمان ندوی، ایک مختصر علمی جماعت سے کام لے رہے ہیں، اور جس پیمانہ پر وہ تالیف و تصنیف کے صیغہ کو وسعت دینا چاہتے ہیں، میرے دعویٰ کے ثبوت میں ہے کہ نری انگریزی دانی کسی درجہ کی ہو، قوم و ملک کے لئے جہاں تک دماغی مشاغل کا تعلق ہے، ایک بےکار سی چیز ہے۔ ’’معارف‘‘ کو دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ رفقاء ’’دارالمصنفین‘‘ کیا کرنا چاہتے ہیں اور خیر الاخلاف ہونے کی ان میں کہاں تک اہلیت ہے۔ میرا خیال ہے تصنیفی افق جو ایک دم سے تاریک ہو گیا تھا، دفعتاً امید افزا ہو چلا ہے اور اگر موجودہ رفتار بھی قائم رہ سکی تو اس علمی جماعت کی متفقہ کوشش سے ایک نئے دو رکا آغاز ہوگا جس کی نہایت سخت ضرورت ہے۔

انجمن ترقی اردو سے چنداں امید نہیں، لائق سکریٹری ہرسال چند بے غایت رسائل کی اشاعت کو فرض کفایہ سمجھتے ہیں لیکن دراصل اس قسم کی بے اصول اور خود رَو اشاعت سے زبان کی ترقی نہیں ہوتی۔ میں نہیں جانتا اس وقت تک کوئی لائق ذکر کام کیا گیا ہے جس سے کسی حد تک زبان کا دائرہ وسیع ہوا ہو، میں ’’فلسفہ تعلیم‘‘ کے بعد ’’فلسفۂ جذبات‘‘ اور ’’فلسفۂ اجتماع‘‘ کی اہمیت سے ناواقف نہیں ہوں، لیکن ان کو چھوڑئے، محض طالب علما نہ رسائل جن کا آئے دن اعلان ہوتا رہتا ہے، اور جن میں اظہار خیال کی حیثیت سے مجتہدانہ روح نہ ہو کس کام کے ہیں۔ انجمن کو سرے سے یہی نہیں معلوم یا وہ جاننا ہی نہیں چاہتی، کسی زبان کی ترقی کے عناصر ترکیبی کیا ہوتے ہیں، یہ بات حیدرآباد یا لکھنؤ میں چند افراد کی خود رائی سے طے نہیں ہوسکتی۔ یورپ کے کسی مستشرق سے پوچھئے جو دنیا کے مختلف لٹریچر کے نظامات طبعی پر نظر غائر رکھتا ہو تو وہ بتائےگا، دراصل آپ کے کرنے کے کام یہ ہیں،


(۱) جامع اللغات اردو۔
(۲) محاورات۔
(۳) لغات الاصطلاحات۔
(۴) لغات فارسی جہاں تک اردو کی تکمیل کا تعلق ہے۔
(۵) لغات عربی بہ ترتیب جدید۔
(۶) ادب العالیہ (اردو) ۱۲ ضخیم جلدو ں میں۔
(۷) جامع القواعد (اردو)
(۸) عقلیات (یعنی فلسفہ اور سائنس کی ہر شاخ پر ایک مستقل کتاب)
(۹) اردو انسائیکلو پیڈیا۔

ارتقاء زبان کی قدرتی ترتیب یہ ہے کہ اس میں صالح لٹریچر کا کافی سرمایہ موجود ہو۔ حسن اتفاق سے ہمارے پاس ایسا ذخیرہ موجود ہے کہ ہم دنیا کی اور کلاسیکس (ادب القدما) کے مقابلہ میں اسے بے تکلف پیش کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد اردو لغات کی تدوین و ترتیب ہے، جس کی اہمیت اس قدر طے شدہ ہے کہ جب تک آپ اسے ختم نہ کر لیں کسی دوسرے موضوع پر ادھوری طبع آزمائی نیک نیتی کے ساتھ بھی دھوکا دینے سے پہلے دھوکا کھانا ہے۔ اردو لغات کے سلسلہ میں ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ کو یاد نہ کیجئے جو حشو و زوائد سے بھری ہوئی ہے جسے کاغذی کاسۂ گدائی سمجھئے جس کی تدوین آج تک ختم نہ ہوئی، اور جس کے اجزاء ہزاروں روپیہ ضائع کرنے کے بعد بھی ایک طرحی اور ہم رنگی نہ پیدا کر سکے۔

بہرحال سب سے پہلے آپ کو لغت تیار کرنا ہے، اور ایک ہی سانس میں روز مرہ اور محاورات کو ایکجا کرنا ہے، جن سے زبان کی آرائش ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی نزاکتیں زبان کے حسن اور اس کی کیفیت کو بڑھاتی چڑھاتی رہتی ہیں۔ آپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ اردو اپنے ذخیرۂ محاورات کے لحاظ سے نسبتاً دوسری زبانوں سے دوم درجہ پر نہیں ہے، اس نے دنیا کی اور کلاسیکس یعنی زندہ اور مستند زبانوں سے جو کچھ لیا، اس کے سوا ذاتی سرمایہ بھی اتنا رکھتی ہے کہ مانگے تانگے کی ضرورت نہیں، لیکن سرمایہ کا بہت بڑا حصہ جو امانت دار تھے ان کے ساتھ ضائع ہو چکا، بچے کھچے، بکھرے ہوئے موتی دلی لکھنؤ میں کچھ اب بھی مل جائیں گے، ان کو سمیٹئے اور گلے کا ہار بنائیے۔

جذبات عشق نے دنیا میں ہمیشہ مشق سخن کی ہے اور نازک سے نازک پیرایۂ اظہار خیال پیدا کئے ہیں۔ آج کسی کو فرصت و لیاقت ہو تو مشرق کو مغرب سے ٹکراکر ایسی آگ پیدا کی جا سکتی ہے جو دلوں کو جلائے گی نہیں صرف گرمائےگی، لیکن جن کو گھر کی خبر نہیں وہ غیروں کی نکتہ آرائیوں سے کہاں تک لطف اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سرسری طور پر دو مصرعے لیجئے جو جذبات میں ڈوبی ہوئی اس سے کہہ رہی ہے جس کے دل کی مالک ہے،

کر چکے تم تو دشت پیمائی
مجھ سے گھر بیٹھے خاک چھنوائی

اور دنیا کی کسی زبان میں یہ بات دکھا دیجئے جو ان نہایت سلیس لیکن فصیح مصرعوں میں ادا کی گئی ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس سے آپ کی اردو بڑی بڑی آبرو دار زبانوں پر فوقیت رکھتی ہے، ہزاروں محاورات ہیں جو دلی اور لکھنؤ والوں کے روز مرے میں داخل ہیں اور جن پر جان دینے کو جی چاہتاہے۔ محاورات تو پھر بھی ایک چیز ہیں، لیکن اس کے توابع مہمل بھی اتنے دلکش ہیں کہ یہ کہیں اور نہ دیکھئے گا، بیشک اردو فنا ہونے والی نہیں اور وہ اس وقت تک زندہ رہےگی کہ بیویاں تو خیر، گھر کی ایک ماما بھی چمک کر ’’نوج‘‘ کہنے والی موجود ہے۔ لیکن میری غرض یہ ہے کہ ایسی خوبصورت، ایسی خوش سیرت، ایسی لطیف ونکتہ خیز زبان اگر آپ کے ہاتھوں اپنی عزت نفس کو قائم نہ رکھ سکی تو اس کا ہونا گویا نہ ہونا ہے۔

ہاں تو میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ لغات اردو کے بعد اصطلاحات کا درجہ ہے، یہ پہلی شق سے کم نہیں ہے۔ مغربی لٹریچر کو اگر آپ اردو قالب میں ڈھالنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مصر سے ذخیرۂ الفاظ منگوائیے، میری غرض علوم فنون سے زیادہ کمال انشا پردازی سے ہے۔ ہم اچھے سے اچھے خیال کو اردو میں اس لئے نہیں لے سکتے کہ الفاظ نہیں ملتے، اس لئے دل کا ارمان پورا نہیں ہوتا، یعنی ہم ایک خاص طرح کے گونگے ہیں کہ سننے اور سمجھنے کے بعد بھی کسی خیال کو اپنی زبان میں ادا نہیں کر سکتے۔

سکریٹری صاحب انجمن اردو نے اپنی ایک رپورٹ میں علم ہیئت کے مصطلحات کے جمع کرنے کی بشارت دی تھی لیکن ممدوح کو یاد نہیں رہا کہ کارزمین کی تکمیل سے پہلے ’’بآسمان پر داختن‘‘ ایک غیر طبعی بلند پروازی ہے، جس سے بجائے اس کے کہ لٹریچر کے مختلف زاویوں کی توسیع ہو، اس کی حق تلفی ہوتی ہے اور یہی غیر منطقی ترتیب ہے، جس سے آج تک صرف اتلاف قوت ہوتا رہا اور کوئی کام کی بات نہ ہوئی۔

قوم میں لکھے پڑھے (صحیح معنوں میں ) تھوڑے ہیں، ان میں بھی تھوڑے ہی ایسے ہیں جو صحیح قوت فیصلہ رکھتے ہیں، یا جن کے دماغ میں لٹریچر کے نازک مسائل کے جذب کرنے کی صلاحیت ہے، لیکن تعجب یہ ہے کہ نہایت موٹی باتیں بھی ان لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتیں، جو ایک مخلوق بے غایت یعنی ۶ کروڑ ’’حشرات الارض‘‘ کی ادبیات کے نقیب بننا چاہتے ہیں۔ یقین کیجئے، ان دماغوں کی ساخت دنیا کی طبی معلومات میں اضافے کرےگی جن کو ترک ’’فرائض‘‘ کا احساس نہیں، لیکن ’’نوافل‘‘ پر اصرار ہے۔ آپ کہتے ہیں ’’البیرونی‘‘ اور ’’مقدمات الطبعیات‘‘ پڑھو! جن میں ایک حرف مجتہدانہ نہیں، مجھے نہایت ادب سے یہ عرض کرنا ہے کہ ان کے پڑھنے کے بعد بھی میں اتنا ہی کورا رہا جتنا استفادہ سے پہلے تھا اور دردسری بیکار گئی، جس کا افسوس ہے۔

میں یہ لکھ رہا ہوں اور عنقریب علی گڑھ میں دوم درجہ کی تالیفات کی دوسری کھیپ یا اس کا اعلان ماسبق، حسن کارگذاری کا دفتر بڑھانا ہوگا، لیکن سوال یہ ہے کہ لٹریچر صرف سادے کاغذ پر سیاہی پھیلانے سے کہاں تک حقیقی فوائد حاصل کر سکتا ہے؟ وقت کا فیصلہ تو کچھ اور ہے، وہ صاف کہہ رہاہے،

’’این بجوئے مانمی ارزد‘‘

بہرحال مصطلحات اردو اس قدر ضروری ہیں کہ ان کے ہوتے کسی اور کام کو شروع کرنے کی ضرورت نہیں۔ لغات جدیدہ جس میں ایک فاضل مؤلف نے ۴ہزار الفاظ جمع کر دیے ہیں، آنکھ رکھ کر نہ دیکھنے والوں کی چشم نمائی کے لئے کافی ہیں، کم سے کم اس کے پانچ سو صفحے تو ہوں۔ خیالات کا سلسلہ ہے کہ ختم نہیں ہوتا اور مجھے ابھی کچھ اور کہنا ہے۔ کسی زبان کے ابتدائی نشو اور ارتقاء تدریجی کے لئے جس قسم کے وسائل ترتیبی کی ضرورت ہے، ایک یورپین مستشرق کے خیال کے مطابق جستہ جستہ عرض کر چکا ہوں اور یہ وہ منطقی ترتیب ہے کہ اگر واقعی اردو لٹریچر کو زندہ رکھنا ہے تو ایک منٹ کے لئے بھی اس سے قطع نظر نہیں ہو سکتی۔

مگر مشکل یہ ہے کہ کرنے والے کہا ں سے آئیں گے۔ جو لوگ کر سکتے تھے، وہ آج منوں مٹی کے نیچے دبے پڑے ہیں۔ علی گڑھ کی مقتدر جماعت نصف صدی کی مشق و مہارت کے بعد بھی اس لائق نہیں ہے کہ زبان کے مسئلہ پر اس حیثیت سے غور کرے کہ بقائے قوم کے لئے (اگر اس کی ضرورت ہو) سب سے زیادہ قوی عنصر یہی ہے۔ کانفرنس اس قسم کی تضییع اوقات پسند نہیں کرتی، وہ ایک عملی چیز ہے، سرسید کے وقت میں ایک آدھ لکچر ہو جاتے تھے جن پر انشا پردازی کچھ دنوں اتراتی رہتی تھی، اب فرط سنجیدگی نے یہ سلسلہ بھی باقی نہیں رکھا۔

قوم میں بہیئت مجموعی جہاں تک نفس لٹریچر کا تعلق ہے کوئی روح اجتماعی نہیں، امرا کو صرف اسی کا شوق نہیں، ملک میں کبھی کبھی خارجی اسباب سے عارضی تحریک پیدا ہو جاتی ہے، لیکن وہ باسی کڑھی کا ایک ابال ہوتا ہے کہ آیا اور گیا، لٹریچر کا مذاق صحیح نہ پہلے تھا نہ اب ہے، یہ وہ راز ہے جس کی بے نقابی لٹریچر کے ساتھ مٹنے والی قوم کے مستقبل کو صدیوں پہلے دفعتاً ہمارے پیش نظر کردیتی ہے۔ جس طبقہ سے بڑی امیدیں تھیں، وہ ’’بالغ العلوم‘‘ہونے کے بعد بھی اپنی زبان سے ناآشنا سا رہتا ہے جس کی خوش بیانی اور لطافت کا اسے بالکل احساس نہیں۔

عورت کتنی ہی حسین ہو، لیکن چاہنے والا اس کی خوش ادائی کو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے تو آرزوؤں سے بھرے دل پر کیا گذرےگی، ایسا سہاگ کس کام کا جو جیتے جی بیوگی سے بھی گیا گذرا ہو، غرض اردو کی طرف سے یہ بے التفاتی ایک قومی مسئلہ ہے جس پر ملک کے شائقین ترقی کو اپنی سب سے پہلی فرصت میں توجہ کرنی چاہئے۔

میں پھر اعادہ کرتا ہوں کہ تصنیفات کا دور ختم ہو چکا، لیکن جو کتابیں پڑھنے کے لائق ہیں ان کو بھی لوگ نہیں پڑھتے۔ اس سے زیادہ خراب حالت صحافت کی ہے جو رائج الوقت لٹریچر کو وقف عام کرنا چاہتی ہے۔ اخبار اور رسالے عالم وجود میں آنے کے بعد ایک وقت خاص تک آپ ہی آپ چلتے ہیں، یعنی شائع کرنے والوں کی وضعداری ان کو جاری رکھتی ہے، لیکن آخر کب تک؟ بہار سے پہلے ان کے حصہ میں خزاں آتی ہے، اور یہ ان کی عنایت ہوتی ہے جن کی دماغی تفریح کے یہ جرائد ذمہ دار ہوتے ہیں۔ خریداروں میں مشکل سے دوچار کو آپ زر بکف پائیں گے، ورنہ حصۂ غالب ادائے قیمت کو ایک طرح کی شکست سمجھتا ہے۔

تجارتی لٹریچر سے قطع نظر کیجئے، اچھے اچھے اخبار اور رسالے صرف چار دن کی چاندنی ہیں کہ آئی اور گئی، بہتیرے بند ہو گئے، کچھ سسک سسک کر چل رہے ہیں، ایک آخری ہچکی کے ساتھ یہ بھی رخصت! یہ مادیت کا دور ہے، ہر چیز اپنی قیمت چاہتی ہے، نرے توکل سے کام نہیں چلتا، جسے آج کل فاقہ کا مرادف سمجھئے۔ ہمارے ہاں جس طرح پڑھنے کا دستور نہیں، ادائے قیمت بھی شائستہ زندگی کا کوئی اصول نہیں۔ اس لئے مدتوں یہ امید نہیں کہ صحافت ہماری زندگی کی رونق بڑھائے اور جب سرے سے دو وقت کی روٹیوں ہی کے لالے ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا ایک فاقہ مست طبقہ خون جگر سے کہاں تک ہمارے ادبی مذاق کی شادابی کو قائم رکھ سکتا ہے۔

بہرحال اردو کانفرنس ہو یا انجمن ترقی، اسٹیج کی خوش بیانی سے زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ ہم اس امر پر غور کریں کہ موجودہ نسل کو کس طرح اردو داں بنایا جائے، جس کی حالت اس بگڑی ہوئی عورت کی سی ہے جو شوہر کے ہوتے ’بوئے غیر‘ کی شائق ہو اور وہ کون سے وسائل ہیں جن سے طبائع عام کی بے التفاتی میں ترغیب و تشویق کی روح پیدا ہو سکتی ہے۔

یہ مسئلہ فی نفسہ اس قدر مہتم بالشان ہے کہ اسے صرف اردو لٹریچر نہیں بلکہ قوم کا عنوان زندگی سمجھئے، اگر اسے آپ سلجھا سکے، یعنی قوم کے وجدان و مذاق میں جہاں تک زبان کا تعلق ہے کوئی مستقل تغیر پیدا ہو سکا تو میرا خیال ہے فضا ئے تاریک بتدریج صاف ہوتی جائے گی اور جن تالیفات کی ضرورت دکھائی گئی ہے، ان کی ترتیب ہم کو اپنے مقاصد کی تکمیل سے قریب تر کردے گی۔ دنیا میں کوئی قوم دکھا دیجئے جس نے اپنی مادری زبان سے علیحدہ ہوکر ترقی کی ہو۔

آج یہ طے شدہ ہے کہ کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک اتحاد مذہب کے ساتھ اس میں اتحاد خیال اور اتحاد زبان نہ ہو۔ مذہبی اتحاد کو تو تیرہ سو برس کافی نہ ہوئے، اسی طرح امید نہیں کوئی قومی تخیل قوم کی مشترک خواہشات کا مرکز عام ہو، لیکن زبان کی یہ حالت نہیں، مدت کی منھ لگی اور اختیاری ہے، فلسفہ کا یہ مسئلہ کہ مستقبل ہمیشہ ماضی اور حال کا نتیجۂ اضطراری ہوتا ہے، قریب قریب سائنس یعنی یقینیات کی حد تک پہونچ گیا ہے۔ جو دور ابھی ختم ہوا ہے وہ لٹریچر کا ’’عہد زریں‘‘ تھا۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ کسی طرح عہد موجودہ کو سنبھال لیجئے تو حصول کامیابی چنداں دور نہیں۔

لیکن جس پیمانہ پر آپ آج تک چلتے رہے، اس کی خود روی منزل بے غایت کی ایک بھول بھلیاں ہے، جس کے چکر، مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے آپ کو مقصود سے ہمیشہ دور رکھیں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ پچھلی حماقتوں کی تلافی کیجئے اور سوچ سمجھ کر طے کر لیجئے کہ جہاں تک اردو لٹریچر کی ترقی تو خیر، بقا کا تعلق ہے، در اصل ہم کو کیا کیا کرنا ہے۔ میں پھر آپ کے ہاتھ میں سوسوا سو صفحوں کا ایک نامکمل رسالہ دیکھ رہا ہوں جس کو آپ دل ہی دل میں اردو کی لائق رشک فتوحات میں سمجھ رہے ہیں، مگر یہ میری چڑھ ہے، آپ کی خود رائی بزعم خود تعلیم یافتہ دماغ کی ایک اپج سہی، لیکن مجھ کو اگر آپ کی مجتہدانہ قابلیت میں شک ہو تو لائق معافی ہوں۔

میں نہیں مانتا کہ آپ کی نظر ان نکات پر حاوی ہے جو کسی زبان کی قدرتی ترقی کے عناصر مؤثرہ یعنی ایسے اجزائے ترکیبی ہیں جن پر قواماً اور براہ راست زبان کا بننا بگڑنا منحصر ہے، اس لئے بلاخوف تردید پھر کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک اردو کے پاس ایک ضخیم جامع اللغات اور محاورات واصطلاحات کا پورا دفتر نہ ہو، آپ کی ناقص اور ادعائی کوششیں ’’نادان دوست‘‘ کے خلوص سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں۔

آپ شاہراہ سے کترا کر تنگ گلیوں اور ناہموار راستوں سے قطع منازل چاہتے ہیں اور یہ جہاں تک کمالات علمی کا تعلق ہے ایک غیرحکیمانہ روش ہے، لٹریچر کا آخری نوٹس یہ ہے جسے یاد رکھئے کہ، ’’عمارت کی ترمیم ہوگی یا عمارت خود نہ ہوگی۔‘‘


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.