Jump to content

اردو اور انگریزی انشاپردازی پر کچھ خیالات

From Wikisource
اردو اور انگریزی انشاپردازی پر کچھ خیالات
by محمد حسین آزاد
319395اردو اور انگریزی انشاپردازی پر کچھ خیالاتمحمد حسین آزاد

اگر زبان کو فقط اظہار مطلب کا وسیلہ ہی کہیں، تو گویا وہ ایک اوزار ہے کہ جو کام ایک گونگے بیچارے یا بچہ نادان کے اشارے سے ہوتے ہیں، وہی اس سے ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں اس کا مرتبہ ان لفظوں سے بہت بلند ہے۔ زبان حقیقت میں ایک معمار ہے کہ اگر چاہے تو باتوں میں ایک قلعہ فولادی تیار کردے جو کسی توپ خانہ سے نہ ٹوٹ سکے، اور چاہے تو ایک رات میں اسے خاک میں ملا دے جس میں ہاتھ ہلانے کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ زبان ایک جادوگر ہے جوکہ طلسمات کے کارخانے الفاظ کے منتروں سے تیار کر دیتا ہے، اور جو اپنے مقاصد چاہتا ہے، ان سے حاصل کر لیتا ہے۔

وہ ایک نادر مرصع کار ہے کہ جس کی دست کاری کے نمونے کبھی شاہوں کے سروں کے تاج اور کبھی شہزادیوں کے نولکھے ہار ہوتے ہیں۔ کبھی علوم و فنون کے خزانوں سے زر و جواہر اس کی قوم کو مالامال کرتے ہیں۔ وہ ایک چالاک عیار ہے جو ہوا پر گرہ لگاتا ہے اور دلوں کے قفل کھولتا اور بند کرتاہے۔ یا مصور ہے کہ نظر کے میدان میں مرقع کھینچتا ہے یا ہوا میں گلزار کھلاتا ہے اور اسے پھول، گل، طوطی و بلبل سے سجا کر تیار کر دیتا ہے۔ اس نادر دست کار کے پاس مانی اور بہزاد کی طرح موقلم اور رنگوں کی پیالیاں دھری نظر آتی ہیں۔ لیکن اس کے استعاروں اور تشبیہوں کے رنگ ایسے خوش نما ہیں کہ ایک بات میں مضمون کو شوخ کرکے لال چہچہا کر دیتا ہے۔ پھر بے اس کے کہ بوند پانی اس میں ڈالے، ایک ہی بات میں اسے ایسا کر دیتا ہے کہ کبھی نارنجی، کبھی گلنار، کبھی آتشی، کبھی ایسا بھینا بھینا گلابی رنگ دکھاتا ہے کہ دیکھ کر جی خوش ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بو قلموں اور رنگارنگ اور پھر سرتاپا عالم نیرنگ۔

جس زبان میں ہم تم باتیں کرتے ہیں، اس میں بڑے بڑے نازک قلم مصور گزر گئے ہیں جن کے مرقعے آج تک آنکھوں اور کانوں کے رستہ سے ہمارے تمہارے دلوں کو تازہ کرتے ہیں، لیکن افسوس ہے کہ آج کل گویا ان کے قلم گھس گئے ہیں اور پیالیاں رنگوں سے خالی ہو گئی ہیں، جس سے تمہاری زبان کوئی نئی تصویریا باریک کام کامرقع تیار کرنے کے قابل نہیں رہی اور تعلیم یافتہ قومیں اسے سن کر کہتی ہیں کہ یہ نا کامل زبان ہر قسم کے مطالب ادا کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔

میرے دوستو! یہ قول ان کاحقیقت میں بے جا نہیں ہے۔ ہر ایک زبان تعلیم یافتہ لوگوں میں جو عزت پاتی ہے، تو دو سبب سے پاتی ہے۔ اول یہ کہ اس کے الفاظ کے خزانے میں ہر قسم کے علمی مطالب ادا کرنے کے سامان موجود ہوں۔ دوم اس کی انشا پردازی ہر رنگ اور ہر ڈھنگ میں مطالب ادا کرنے کی قوت رکھتی ہو۔ ہماری زبان میں یہ دونوں صفتیں ہیں، مگر ناتمام ہیں، اور اس کے سبب ظاہر ہیں۔

علمی مطالب ادا کرنے کے سامانوں میں جو وہ مفلس ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ تم جانتے ہو، کل ڈیڑھ سو برسوں تخمیناً اس کی ولادت کو ہوئے۔ اس کا نام اردو خود کہتا ہے کہ میں علمی نہیں، بازار کی زبان ہوں۔ اٹھنے بیٹھنے، لین دین کی باتوں کے لئے کام میں آتی ہوں۔ سلاطین چغتائیہ کے وقت تک اس میں تصنیف و تالیف کا رواج نہ تھا۔ مگرخدا کی قدرت دیکھو کہ ایک بچہ شاہ جہاں کے گھر پیدا ہو اور انگریزی اقبال کے ساتھ اس کا ستارہ چمکے۔ جب صاحب لوگ یہاں آئے تو انہوں نے ملکی زبان سمجھ کر اس کے سیکھنے کا ارادہ کیا۔ مگر سوا چند دیوانوں کے اس میں نثر کی کتاب تک نہ تھی۔ ان کی فرمائش سے کئی کتابیں کہ فقط افسانے اور داستانیں تھیں، تصنیف ہوئیں اور انہی کے ڈھب کی صرف و نحو بھی درست ہوئی۔ ۱۸۳۵ سے دفتر بھی اردوہونے شروع ہوئے۔ ۱۸۳۶ میں ایک اردو اخبار جاری ہوا۔ ۱۸۴۲ سے دہلی کی سوسائٹی میں علمی کتابیں اسی زبان میں ترجمہ ہونے لگیں اور اردو نے برائے نام زبان کا تمغہ اور سکہ پایا۔ اب خیال کرنا چاہئے کہ جس زبان کی تصنیفی عمر کل۷۰۔ ۷۲برس کی ہو، اس کی بساط کیا اور اس کے الفاظ کے ذخیرہ کی کائنات کیا ہیں؟ پس اس وقت ہمیں اس کی کمی الفاظ سے دل شکستہ نہ ہونا چاہئے۔

میرے دوستو! کسی زبان کو لفظوں کے اعتبار سے مفلس یا صاحب سرمایہ کہنا بے جاہے۔ ہرزبان اہل زبان کے باعلم ہونے سے سرمایہ دار ہوتی ہے اور کسی ملک والے کا یہ کہنا کہ علمی تصنیف یا بات چیت میں اپنے ہی ملک کے الفاظ بولیں، بالکل بے جاہے۔ عربی زبان بھی ایک علمی زبان تھی۔ مگر دیکھ لو، سارے لفظ تو عربی نہیں، صد ہا رومی، صدہا یونانی، صدہا فارسی کے لفظ ہیں وغیرہ۔ اردو زبان فارسی کا تو ذکر ہی نہیں۔ انگریزی زبان آج علوم کا سرچشمہ بنی بیٹھی ہے، مگر اس میں بھی غیر زبان کے لفظوں کا طوفان آ رہا ہے۔ زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ پہلے اہل ملک میں علم آتاہے، پھر علمی اشیا کے لئے الفاظ یا تو اس علم کے ساتھ آتے ہیں یا وہیں ایجاد ہو جاتے ہیں۔ علمی الفاظ کا ذخیرہ خدا نے بناکر نہیں بھیجا ہے نہ کوئی صاحب علم پہلے سے تیار کرکے رکھ گیا ہے۔ جیسے جیسے کام اور چیزیں پیدا ہوتی گئیں، ویسے ہی ان کے الفاظ پیدا ہوئے اور پیدا ہوتے جاتے ہیں۔

اول خاص وعام میں علم پھیلتا ہے، ساتھ ہی اس کے الفاظ بھی عام ہوتے ہیں۔ مثلاً ریل کا انجن اوراس کے کارخانہ کے صدہا الفاظ ہیں کہ پہلے یہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔ جب وہ کارخانے ہوئے تو ادنی ادنی ناخواندے، سب جان گئے۔ اگربے اس کے وہ الفاظ یہاں ڈھونڈتے یا پہلے یاد کرواتے، توکسی کی سمجھ میں بھی نہ آتے۔ اسی طرح مثلا میجک لینٹرن اس وقت یہاں کوئی نہیں جانتا، خواہ اس کا یہی نام لیں، خواہ فانوس جادو کہیں، خواہ اچنبھے کا تماشا کہیں، ہرگز کوئی نہیں سمجھےگا۔ لیکن اگر وہ مشاہدہ میں عام ہو جائے اور گھر گھر میں جاری ہو جائے تو الٹے سے الٹا اس کا نام رکھ دیں، وہی بچہ بچہ کی زبان پر مشہور ہو جائےگا اور وہی سب سمجھیں گے۔ انگریزی میں جوعلمی الفاظ ہیں مثلا ٹیلی گراف یا الیکٹریسٹی وغیرہ، ان میں بھی بہت سے الفاظ ایسے ہیں کہ وہ اپنے اصلی معانی پر پوری دلالت نہیں کرتے۔ مگر چونکہ ملک میں علم عام ہے اور وہ چیزیں عام ہیں، اس لئے الفاظ مذکورہ بھی ایسے عام ہیں کہ سب بے تکلف سمجھتے ہیں۔

پس لفظوں کی کوتاہی ہماری زبان میں اگرہے تو اس سبب سے ہے کہ وہ بے علمی کے عہد میں پیدا ہوئی ہے اور اسی عہد میں پرورش اور تربیت پائی۔ اب اس کی تدبیر ہو سکتی ہے تو اہل ملک ہی سے ہو سکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ خود علوم و فنون حاصل کرو، اپنے ملک میں پھیلاؤ اور بھائی بندوں کو اس سے آگاہ کرو۔ جب اس میں سب قسم کے کاروبار ہوں گے تو ان کے الفاظ بھی ہوں گے، ملک کے افلاس کے ساتھ زبان سے بھی افلاس کا داغ مٹ جائےگا۔

تمہاری انشا پردازی پر جو نقص کا الزام ہے وہ بھی کچھ درست ہے اور کچھ قابل چشم پوشی کے ہے۔ یہ تو ابھی بیان ہوا کہ زبان مذکور علمی زبان نہیں۔ سو برس ہوئے کہ ہندوستان کے رنگین مزاجوں نے فقط اس حب الوطنی سے کہ ہماری زبان بھی اور زبانوں کی طرح نظم سے خالی نہ ہو، اس میں اپنی مرصع کاری اور نقش نگاری دکھانی شروع کی۔ اور حق یہ ہے کہ ۱۲۱۵ھ میں جو کچھ زور اس نے پایا انہی کی بدولت پایا۔

انشا پردازی کا قاعدہ ہے کہ ابتدا میں جو مطالب کسی زبان میں ادا ہوتے ہیں توان میں سیدھی سادی تشبیہیں اور قریب قریب استعارے خرچ ہوتے ہیں۔ اسی واسطے جو مطالب اس میں ادا کئے جاتے ہیں وہ سنتے ہی سمجھ میں آجاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس پاس کے استعارے اور ان چیزوں کی تشبیہیں جو آنکھوں کے سامنے ہمارے آس پاس موجود ہیں، وہ فقط مطلب مذکور کو سمجھاتے ہی نہیں بلکہ اپنی رنگینی اور لطافت سے اس کے لطف کو روشن کرکے دکھاتے ہیں اور چوں کہ سادگی اور آسانی کے سبب سے انہیں سب سمجھتے ہیں، اس لئے سب کے دل، اس کی تاثیر سے اثر پذیر ہوتے ہیں۔ چند روز کے بعد قریب قریب کی تشبیہیں اور استعارے تو خرچ ہوجاتے ہیں اور آس پاس کی تشبیہیں عام تام ہوکر تمام ہو جاتی ہیں۔ نئی نسلیں دستمال تشبیہوں اور استعاروں کو برتنا، چبائے ہوئے نوالہ کا چبانا سمجھتی ہیں، لیکن علم اور مشق جو مختلف رستوں سے آگاہ کر دیتے ہیں اس لئے ان کے فکر کبھی دائیں بائیں پھیلتے ہیں، اور کبھی بلند ہونا شروع کرتے ہیں اور دور دور ہاتھ بڑھاتے ہیں۔

فارسی اور اردو زبان میں جو کیفیت اس کی گزری ہے، اس وقت میں اسی کا اشارہ کرتا ہوں کہ شعرا نے مستعمل استعاروں سے بچنے کے لئے استعارہ اور استعارہ در استعارہ نکالا اور اسے ایک ایجاد دل پذیر تصور کرکے ’نازک خیالی‘ نام رکھا۔ چونکہ دنیا میں ہر ایک نئی چیزبہت مزا دیتی ہے، اس لئے اوروں نے بھی اسے پسند کیا اور علم کی مشکل پسندی نے اسے زیادہ قوت دی اوریہ معاملہ روز بروز زور پکڑتا گیا۔ چنانچہ ان بلندخیالوں میں دنیا کے کاروبار مثلاً خط و کتابت یا تاریخی مقاصد یا علمی مطالب کا ادا کرنا توبہت دشوار تھا مگر ایک فرقہ پیدا ہوا جنہوں نے ’چال بند ‘ کا خطاب حاصل کیا۔ انہی کی نثریں پنج رقعہ، مینا بازار، چار عنصر وغیرہ اور نظم میں جلال اسیر، قاسم مشہدی، بیدل، ناصر علی اور ان کے مقلدوں کے دیوان موجود ہیں۔ چنانچہ دونوں کے امتیاز کے لئے دو شعر بھی اس مقام پر لکھتا ہوں۔ پہلے طریقہ میں ایک استاد کہتا ہے،

سحر خورشید لرزاں برسر کوے تومی آید
دل آئینہ را نازم کہ برروے تومی آید

دیکھو ناصرعلی سرہندی نے اسی مضمون کو اپنی نازک خیالی کے زور سے الگ کیا ہے۔

نیا رد چشم بیدل تاب حسن بے حجابش را
کہ باشد صافی آئینہ شبنم آفتا بش را

چونکہ اردو نے فارسی کا دودھ پی کر پرورش پائی تھی، اس لئے چندروز کے بعد یہی وقت اسے بھی پیش آئی۔ میرسوز، میرتقی، سودا، جرأت وغیرہ کے زمانے تھے۔ ان میں اگرچہ مضامین شاعرانہ تھے، مگر زبان میں ابتدائی خوبی موجودتھی۔ بعد ان کے وہی استعاروں کے ایچ پیچ اور خیالوں کی معمولی ترقی شروع ہوئی۔ البتہ خال خال آدمی ایسے رہے، جو بزرگوں کی تقلید سے صفائی اور سادگی کی لکیر پر فقیر رہے۔ مثلا ًقدما میں خواجہ میر درد کہتے ہیں،

تردا منی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

متاخرین میں غالبِ نازک خیال اس سے الگ ہوکر کہتے ہیں،

دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

ہمیں ممنون ہونا چاہئے کہ جو کچھ لطافت یا زور ہماری زبان میں پیدا ہوا، انہیں شعرا کی برکت سے ہوا۔ مگروہ عاشقانہ مضامین کے ادا کرنے کے سامان اور تغزل کے خوشنما انداز اور اس کے الفاظ اور ترکیبوں کی دل آویز تراشیں تھیں۔ بھلا خیالات فلسفہ کے سامان، علوم کی اصطلاحیں، مختلف مضامین تاریخی کے ادا کی طاقت، دلائل و براہین کے لڑانے کے زور اس میں کہاں سے آتے۔ اگرچہ ابتدا میں جو کچھ تھا، یہ رنگ بہت خوشنما تھا۔ مگر اب دیکھتا ہوں تو زمانے کے انداز نے اسے بھی پھیکا کر دیا ہے اور تمہاری انشا پردازی کا یہ حال ہو لیا ہے کہ غیر قومیں تو کچھ کہیں بجا ہے، میں خود دیکھتا ہوں اور شرماتا ہوں کیونکہ مستعمل چیز میں شگفتگی اور تازگی دکھانی بہت مشکل ہے۔ پھر بھی خدا کا شکر کرنا چاہئے کہ ایک خزانہ مصوری کا تمہارے ہاتھ آ گیا ہے۔ مگر اتنا ہے کہ وہ انگریزی قفلوں میں بندہیں۔ جس کی کنجی انگریزی زبان ہے۔

اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ جس طرح ہم فارسی، عربی کے الفاظ اردو میں بولتے ہیں، اسی طرح انگریزی الفاظ بولنے لگیں، یا ان کے محاوروں اور اصطلاحوں کے ترجمے اردو میں استعمال کرنے لگیں۔ لیکن تم خیال کرو کہ عبارت اور الفاظ حقیقت میں انسان کے خیالات اور مقاصد کے لباس ہیں اور چوں کہ طبعی خیال فرقہ ہائے انسان کے ہمیشہ قریب قریب ہوتے ہیں، اسی لئے وہ جس ملک میں چاہیں رنگ ظہور دکھائیں۔ اصلیت میں کچھ نہ کچھ ملتے جلتے ہی ہوں گے، بلکہ ان میں بعض ڈھنگ ایسے ہوں گے کہ ذرا رنگ پلٹ کر چاہیں گے تو دوسری طرف آ جائیں گے اور نئی بہار دکھائیں گے۔ چنانچہ جب بنظر غور دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ دو قوموں کے ارتباط سے ہمیشہ ایک زبان دوسری زبان سے پرتوہ لیتی رہی ہے۔ دیکھ لو، بھاشا پر جب فارسی عربی آکر گری تو اس کا کیا اثر ہوا اور اب انگریزی کیا اندرونی اثر کر رہی ہے۔ فارسی اردو میں تم نے وقت کے باب میں دیکھا ہوگا کہ زمانہ یا زندگی کوعمر رواں یا آب گزراں کہتے ہیں۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ زمانہ عمر کی کھیتی کو یار سنِ عمر کو کاٹ رہا ہے۔ اوریہ بھی کہ، گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔

اسی طرح غصہ کے باب میں دیکھا ہوگا کہ اسے آتش غضب کہہ کر آگ سے تعبیر کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہمچومارسیاہ برخود پیچید اور کبھی جوش

غضب کے لئے کہتے ہیں کہ آتش از چشمش پرید، دود از نہاوش برآمد، اور ہمچو سپنداز جابر جست۔ پس انگریزی میں متھالیجی ایک خاص علم ہے کہ اس میں ان سب قوتوں یا جذبوں کو ایک ایک مجسم دیبی یا دیوتا مقرر کیا ہے اور انہی سامانوں سے سجایا ہے جو ان کے لئے لازم اور شایان ہیں۔ چنانچہ۔۔۔

وقت، ایک پیر کہن سال کی تصویر ہے۔ اس کے بازوؤں میں پر یوں کی طرح پر پرواز لگے ہیں کہ گویا ہوا میں اڑتا چلا جاتا ہے۔ ایک ہاتھ میں شیشہ ساعت ہے کہ جس سے اہل عالم کو اپنے گزرنے کا اندازہ دکھا جاتا ہے۔ اور ایک میں درانتی ہے کہ لوگوں کی کشت امید یا رشتہ عمر کو کاٹتا جاتا ہے۔ یا ظالم خونریز ہے کہ اپنے گزرنے میں ذرا رحم نہیں کرتا۔ اس کے سر پر یک چوٹی بھی رکھی ہے کہ جو دانا ہیں اسے پکڑ کر قابو میں کر لیتے ہیں۔ لیکن اوروں کے چوٹیاں پیچھے ہوتی ہیں، اس کی چوٹی آگے رکھی ہے۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ جو وقت گزر گیا، وہ قابو میں نہیں آ سکتا۔ ہاں جو پیش بین ہیں وہ پہلے ہی سے روک لیں، سو روک لیں۔

غصہ، ایک عورت ہے، کالارنگ، ڈراؤنی صورت۔ تمام بدن پر بال کھڑے ہیں جیسے لوہے کی سلاخیں۔ سرپر اور بازوؤں پر ہزاروں سانپ پھن اٹھائے لہرا رہے ہیں، اور آنکھوں سے خون برستا ہے۔ بعض صورتوں میں اس کے دو پر ہیں کہ اڑائے لئے جاتے ہیں۔ اور اس کے ہاتھ میں شعلہ آتش ہے کہ دم بدم بھڑکتا چلا جاتا ہے۔ اور ایک ہاتھ میں خونریزی کا برچھا ہے۔

عشق، ایک موقع پر اسے نوجوان خوبصورت لڑکا فرض کیا ہے کہ خوش ہے اور اپنے عالم میں اچھلتا کودتا ہے، مگر آنکھوں سے اندھا رکھا ہے۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ بھلائی برائی کونہیں سوچتا۔ کبھی ایک جوان آدمی بنایا ہے اور ہاتھ میں چڑھی ہوئی کمان میں تیر جوڑا ہوا ہے کہ جدھر چاہتا ہے مار بیٹھتا ہے، اس کی پناہ نہیں۔ ایک موقع پر ایسی تصویر کھینچی ہے کہ پہلو میں تیروں کا ترکش لٹکتا ہے اور ہاتھ سے تیر کا پیکان تیز کر رہا ہے۔ یہ تصویر ایک ہیرے پر کھدی ہوئی ہاتھ آئی تھی۔ خدا جانے کس عہد میں کھدی ہوگی اور کیا طلسم اس میں باندھا ہوگا!

افواہ یا شہرت، اس کی تصویر دیکھی۔ ایک بڑھیا عورت ہے کہ اس کے تمام بدن پر زبانیں ہی زبانیں ہیں۔ پہلے اس کے منہ میں زبان ہلتی ہے، ساتھ ہی ساتھ ساری زبانیں سانپوں کی طرح لہرانے لگتی ہیں۔ اشارہ یہ ہے کہ جو بات اس کی زبان سے نکلتی ہے، وہی عالم میں ایک ایک کی زبان پر آتی ہے۔

حسن کی پری، سمندر کے کف سے پیدا ہوئی ہے۔ شاید اس سے جوش و خروش کے ساتھ اس کی لطافت اور نزاکت کا اشارہ ہو۔ وہ خود بھی محبت رکھتی ہے، مگر لڑائی کے دیوتا پر عاشق ہے۔ جس کو وہ نصیب ہو جائے وہ اس کے پر تو جمال سے کامیاب ہو، پھولوں میں مہندی، گلاب، سیب، لالہ، نافرمان وغیرہ سے اس کی درگاہ میں نذر چڑھتی ہے۔ فاختہ، ہنس، ابابیل، ہدہد وغیرہ اس کے تخت کو اڑاتے ہیں۔ خوشبوؤں کی دھونی اور پھولوں کا ہار اس کا متبرک چڑھاوا ہے۔ انگریزی میں انہیں گاڈز کہتے ہیں اور ہر ایک جذبہ انسانی بلکہ خزاں اور بہار اور موسیقی وغیرہ کے لئے مختلف گاڈز تیار کئے ہیں۔ زمانے کی گردشوں نے ہمارے علوم کو مٹا دیا، اس لئے آج یہ باتیں نئی معلوم ہوتی ہیں، ورنہ سنسکرت میں بھی اکثر اشیاء کے لئے ایک ایک دیبی یا دیوتا ہیں۔

مسلمانوں کے دماغ بھی اس خیال سے خالی نہیں تھے۔ ان کی تصنیفات میں فلاسفہ کا قول منقول ہے کہ اگر ایک مور کے پر کو دیکھیں اور اس کے صنائع و بدائع پر نظر کریں تو عقل حیران ہوتی ہے کہ کون سا صانع ہوگا جو ایسی دست کاری کر سکے۔ پھر مور کے تمام جسم کو دیکھو اور اسی نسبت سے تما م عالم موجودات اوراس کے جزئیات کو دیکھو۔ پھر جب دیکھتے ہیں الواحد لا یصدرعنہ الا الواحد یعنی ایک فاعل سے ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے، تو ضرور ہے کہ کائنات کے مختلف کارخانوں کے لئے ایک ایک رب النوع فرض کیا جائے جو اپنے اپنے کارخانے کا سربراہ ہو اور سب کا مالک رب الارباب جامع جمیع صفات کمال۔ اہل شریعت نے اسی کو ہر ایک سلسلہ کا ایک ایک فرشتہ موکل مانا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ صرف زبان کافرق ہے ورنہ وہی دیبی یا دیوتا، وہی گاڈز، وہی رب النوع، وہی فرشتہ موکل۔ یہ خیال مدت سے دل میں کھٹکتا تھا۔ چند روز ہوئے کہ شاہ ایران نے جو سفرنامہ یورپ کا آپ لکھا ہے، وہ میری نظر سے گزرا۔ فرانس کے معنی آفرینوں نے ایک جگہ باغ رنگین میں ایک نقلی پہاڑ بنایا ہے اور اس پر بہار کی گاڈس سجائی ہے۔ چنانچہ شاہ نے وہاں پہنچ کر اسے دیکھا ہے اور اپنے بیان میں اسے رب النوع ہی لکھا ہے۔

غرض یہ ہے کہ خیالات کے اتفاقوں کوغور سے دیکھو کہ فقط طبیعت کی تاثیر ہے جس نے مختلف ملکوں میں مختلف طور پر طبیعتوں کے جوش ظاہر کئے ہیں، مگر سب کا راستہ کسی قدر قریب قریب ہوکر نکلا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ جب ایک جذبہ موہوم کومجسم فرض کرتے ہیں اور اس کی صفات اور لوازمات کو آنکھوں کے سامنے سجاتے ہیں تو اس پر طبیعت کی تاثیر پوری پوری قائم ہوتی ہے اور جو خیالات اس پر نکلتے ہیں، ٹھیک درستی کے ساتھ ہوتے ہیں اور برجستہ الفاظ میں ادا ہوتے ہیں کہ یہی انشا پردازی کا اپمان ہیں۔ خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارے انداز پرانے اور مستعمل ہو گئے تو ہمیں چاہئے کہ انگریزی باغ میں سے نئے پودے لے کر اپنا گلزار سجائیں۔ البتہ دونوں زبانوں میں ایسی مہارت ہونی چاہئے کہ یہ تصرف خوبصورتی کے ساتھ ہو سکے جیسا کہ ابتدا میں ہمارے اردو، فارسی کے انشا پرداز کر گئے۔ اور پھر کہتا ہوں کہ یہ مطلب جب کبھی ہوگا، ان انگریزی دانوں سے ہوگا، جو دونوں زبانوں میں پوری پوری مہارت رکھتے ہوں گے، کیونکہ ان کے دو آنکھیں روشن ہیں۔

اردو اپنی زبان ہے اور انگریزی کنجی خدا نے دی۔ ہم اورہمارے ساتھی پرانی لکیروں کے فقیر، جو کچھ کرنا تھا سو کر چکے۔ نہ ان میدانوں میں اب ہم سے کچھ ہو سکے۔ چقماق کے دونوں جزوں کو ٹکراؤ کہ آگ نکلے۔ اون اور شیشے کو رگڑو الیکٹرسٹی کے فوائد حاصل ہوں۔ لیکن فقط پتھر ہو، تو پتھر ہی ہے اور فقط شیشہ، ڈر کا گھر۔ اپنی زبان کے زور سے اس میں اس طرح جان ڈالو کہ ہندوستانی کہیں سودا اور میر کے زمانے نے عمر دوبارہ پائی۔ اس پر انگریزی روغن چڑھا کر ایسا خوش رنگ کرو کہ انگریز کہیں ہندوستان میں شکسپیئر کی روح نے ظہور کیا۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.