Jump to content

ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے

From Wikisource
ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے
by میر تقی میر
315354ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہےمیر تقی میر

ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے
ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے

مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

مقامر خانۂ آفاق وہ ہے
کہ جو آیا ہے یاں کچھ کھو گیا ہے

کچھ آؤ زلف کے کوچے میں درپیش
مزاج اپنا ادھر اب تو گیا ہے

سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.