ابھی ہے غیر کے الطاف سے جفائے حبیب
Appearance
ابھی ہے غیر کے الطاف سے جفائے حبیب
وہی رضا ہے ہماری جو ہے رضائے حبیب
نہ سمجھوں اپنا کسی کو رقیب رشک سے میں
وہ میرا دوست ہے جو ہووے آشنائے حبیب
وہ خواہ قتل کرے خواہ میری جاں بخشے
کہ مرگ و زیست پہ مختار ہے رضائے حبیب
نہ تیغ یار سے گردن پھراؤں میں ہرگز
کہ عین لطف سمجھتا ہوں میں جفائے حبیب
پتنگے شمع کے صدقے ہوں بلبلیں گل پر
کوئی کسی کے فدا ہو میں ہوں فدائے حبیب
بہشت کی مجھے ترغیب دے نہ تو واعظ
کسی کی مجھ کو تمنا نہیں سوائے حبیب
ہمیشہ مجھ سے وہ کہتا تھا مر کہیں حسرتؔ
ہزار شکر پذیرائی ہوئی دعائے حبیب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |