ابھی اپنے مرتبۂ حسن سے میاں با خبر تو ہوا نہیں
ابھی اپنے مرتبۂ حسن سے میاں با خبر تو ہوا نہیں
کہ غزل سرا ترے باغ میں کوئی مرغ تازہ نوا نہیں
جو گلی میں یار کی جاؤں ہوں تو اجل کہے ہے یہ رحم کھا
تو ستم رسیدہ نہ جا ادھر کوئی زندہ واں سے پھرا نہیں
وہ غریب و بے کس و زار تھا تجھے اس کا دیتا ہوں میں پتہ
ترے کشتہ کا وہ مزار تھا کہ چراغ جس میں جلا نہیں
جو حکیم پاس میں جاؤں ہوں تو وہ دوستی سے سنائے ہے
تو معاش کی بھی تلاش کر یہ مقام فقر و فنا نہیں
مجھے عشق رکھتا ہے سرنگوں مرا جال پوچھو نہ کیا کہوں
میں حباب بحر کا شیشہ ہوں مرے ٹوٹنے کی صدا نہیں
ترے خاکساروں نے اپنا سر نہیں پیٹا دشت میں اس قدر
کہ بگولہ واں سے غبار کا طرف آسماں کے گیا نہیں
نہ نسیم باغ و بہار ہوں نہ فدائے روئے نگار ہوں
میں غریب شہر و دیار ہوں مری دیر و کعبہ میں جا نہیں
ترے نخل حسن کی کونپلیں ابھی ناشگفتہ ہیں اے پری
جو نسیم آئی ہے اس نے بھی انہیں کچھ سمجھ کے چھوا نہیں
ترے گیسوؤں میں جو جاتی ہے تو مرا ہی حال کہہ آتی ہے
مری خصم جاں بھی تو اس قدر یہ نسیم نافہ کشا نہیں
نہ میں رہنے والا ہوں باغ کا نہ صفیر سنج ہوں راگ کا
مجھے ڈھونڈے ہے سو وہ کس جگہ کہیں آشیان ہما نہیں
کوئی زخم خوردہ ہے خار کا کوئی خوں طپیدہ بہار کا
ہے مرا ہی حوصلہ مصحفیؔ کہ کسی سے مجھ کو گلا نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |