Jump to content

ابن علی سے سنا ہے یار و دشت بلا میں لڑائی ہوئی

From Wikisource
ابن علی سے سنا ہے یار و دشت بلا میں لڑائی ہوئی
by میر تقی میر
313534ابن علی سے سنا ہے یار و دشت بلا میں لڑائی ہوئیمیر تقی میر

ابن علی سے سنا ہے یار و دشت بلا میں لڑائی ہوئی
ایدھر تھے ہفتاد و دو تن یہ اودھر ساری خدائی ہوئی
صاف نکل کر جیسے گیا یہ گھر کی ساری صفائی ہوئی
چارہ کیا ہے خواہش حق سے کب رہتی ہے آئی ہوئی

تھی وہ ختم رسلؐ کی امت یہ بھی اس کا نواسا تھا
چشم وفاداری رکھتا تھا ایک جگہ کا باسا تھا
سو وے سب دریا پر اترے ایک یہی واں پیاسا تھا
دیکھو ان اندھے لوگوں سے کیسی دیدہ درائی ہوئی

ہائے کنھوں نے یہ بھی نہ پوچھا کیا ہے گنا ان لوگوں کا
ثابت کچھ تو کیا چاہے ہے حال برا ان لوگوں کا
قتل ہوا پھر کس خاطر سردار بھلا ان لوگوں کا
یہ جو مسافر آ اترے تھے کاہے کو ان پہ چڑھائی ہوئی

آنکھ ملا کر کہہ تو فلک پر کیسی نظر تھی تاروں کی
جانیں کھپیاں گردنیں کٹیاں بھوکے پیاسے بچاروں کی
سرور دیں یوں خاک میں لوٹیں عزت ہو یوں خواروں کی
چتر گرایا کس کا ظالم کس کے ہائے دہائی ہوئی

کہیے طول جو حد رکھے کچھ ظلم و ستم کے ہاتھوں کا
کیسا ٹھہرا سبط نبی پر قدغن تھا سب باتوں کا
دن کا کھانا ترک ہوا تھا منع تھا سونا راتوں کا
پانی سید پینے نہ پاویں چاروں اور منائی ہوئی

کیا داور محشر کو کہے گا سر رفتہ کر گوش اس کا
حیدر صفدر باپ ستم کش نانا احمدؐ تھا جس کا
ظلم سے اس کو کیوں مارا یہ مجرم ایسا تھا کس کا
قہر ہے جو دکھلاوے گا پیشانی پہ برچھی کھائی ہوئی

کھانا پینا ترک کیے پر اس کو یہ غم کھانے پڑے
بیٹے بھتیجے بھائی سب کے سر ناچار کٹانے پڑے
ہائے رے اس غربت پر اس کو کیا کیا ظلم اٹھانے پڑے
جان کھپی ناموس لٹی گھر بار گیا رسوائی ہوئی

جب بولیں ہیں لوگ حرم کے چھاتی پھٹ پھٹ جاوے ہے
ایک کھڑی تھانبے ہے عابد ایک اسے سمجھاوے ہے
ایک طرف مچلی ہے سکینہ زینب اس کو مناوے ہے
بابا بن وہ روٹھی جو ہے سو منتی نہیں ہے منائی ہوئی

جل کے جگر ہے راکھ کی ڈھیری اور توا ہر چھاتی ہے
جوش غبار ملال اٹھے پر آندھی سی اک آتی ہے
پات اور بن ہیں جیسے سوکھے جانیں اڑا لے جاتی ہے
پہنچے ہے تا عرش اعظم خاک ہماری اڑائی ہوئی

ایک بہن کہتی تھی یوں گھر بار ترا کیوں لوٹ لیا
کوئی نہ چھوڑا پیچھے جیتا ہائے یہ کیا ستھراؤ کیا
کنبہ مر کر ڈھیر ہوا آخر کو تونے جی بھی دیا
بارے تقصیر ایسی سزا کی کیا تجھ سے اے بھائی ہوئی

ایک کہے تھی نوشہ قاسم کیسا بیاہ رچایا تھا
کیا ساعت تھی نحس وہ جس میں بیاہنے کو تو آیا تھا
لگ گئی چپ ہے ایکا ایکی اتنی ہی کیا لایا تھا
منھ بولے ہے اب تک تیرے ہاتھ کی مہندی لگائی ہوئی

نیگ کی جس کو رسم تھی اس سے کہتی تھی وہ رو رو کر
رسمیں کتنی باقی تھیں جو یاں سے چلا غمگیں ہوکر
جاتے ہی آنکھیں مند گئیں شب کو کیا نہ اٹھا تھا تو سوکر
ایک نگاہ حسرت ہی کیا سہرے کی میرے بندھائی ہوئی

کوئی کہے تھی شبیہ اکبر آنکھوں میں کیونکر اب آوے
نقشہ اس کا نقش جو ہے خاطر صفحہ سے کیا جاوے
دل کی تڑپ اب جا ہی چکی ہے جان تسلی کیا پاوے
جلوہ گری پھر کرتی ہے کوئی صورت ایسی مٹائی ہوئی

ظلم اٹھایا جی بھی کھپایا سر کو کٹایا چھاتی جلی
پیاسا جی سے گیا دریا پر منت پھر اک خس کی نہ لی
شہ جو غیور تھا سوچا جی میں اس جینے سے موت بھلی
ہاتھ پسارے کون کسی سے شاہی نہیں یہ گدائی ہوئی

ایک کہے تھی کوئی ہمارے چھٹکارے کی طرح نہیں
ظلم و ستم ہے جور و جفا ہے رحم کسو میں ہے بھی کہیں
ظاہر ہے رفتار فلک سے رکھا ہم کو اسیر یہیں
قید حیات سے نکلا کوئی جو بارے اس کی رہائی ہوئی

کوئی کہے تھی تونے شاہا جتنے ان سے جور سہے
یار و یاور خویش و برادر سارے آکر ٹھور رہے
خاک تھے جوکہ انھوں نے اٹھ کر منھ پر کیا کیا حرف کہے
ہائے رے کیونکر دل میں تیرے ایسے غموں کی سمائی ہوئی

ایک کہے تھی ظلم و ستم پوشیدہ نہیں جو کریے بیاں
سب پیدا ہیں ان سے جو یہ مارے پڑے ہیں پیر و جواں
بھوکے پیاسے اکبر و قاسم خستہ جگر خود شاہ زماں
منھ پہ سبھوں کے نمایاں ہے تلوار ستم کی کھائی ہوئی

کوئی کسو ملت میں یارو ایسا ستم بھی کرتا ہے
سبط نبی فرزند علی کا ناچاری سے مرتا ہے
دل تو چاہے ہے جینے کو پر موت پہ جی کو دھرتا ہے
کیا سمجھے تھے شامی کوئی ایسی جن سے برائی ہوئی

کیا سمجھی یہ قوم سیہ رو کیا ان نے یہ خیال کیا
زہر حسن کو دے کر مارا حیدر کا وہ حال کیا
اب جو حسین رہا تھا بیکس تس کو یوں پامال کیا
اول سے لے تا آخر کیا ان لوگوں سے بھلائی ہوئی

حال عابد کچھ مت پوچھو ایک تو تھا بیمار و نزار
دوسرے کنبہ اس کا سارا جور و ستم سے ڈالا مار
تیسرے آفت آکر ایسی ٹوٹ پڑی ہے ایک ہی بار
چوتھے ایسے حال میں اس کو ویسے پدر سے جدائی ہوئی

قصہ کوتہ میرؔ کہاں تک آل عبا کے دکھ سنیے
رویئے کڑھیے ماتم کریے کوٹیے چھاتی سر دھنیے
جیسے کباب بروے آتش جلیے شام و سحر بھنیے
چپ رہ ظالم خوب نہیں اب آگے بات بڑھائی ہوئی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.