Jump to content

آیا ہے مگر عشق میں دل دار ہمارا

From Wikisource
آیا ہے مگر عشق میں دل دار ہمارا (1920)
by علیم اللہ
304413آیا ہے مگر عشق میں دل دار ہمارا1920علیم اللہ

آیا ہے مگر عشق میں دل دار ہمارا
ہر تن میں ہوا جان ہر اک جسم کا نیارا

بے مثل اس کے حسن کو کہتے ہیں دو عالم
دستا ہے ہر اک خلق کو اپنے سوں پیارا

من کان نہ ہو یار کے درسن کو نہ جانے
آیا نہیں کوئی پھر کے جہاں بیچ دوبارا

اس شمع درخشاں کو اپس ساتھ تو لے جا
ور نہیں تو قبر بیچ ہے ظلمات اندھارا

کرنے میں جمع زر کے گنواتا ہے عمر کیوں
آخر کو نکل جائے گا سب چھوڑ ضرارا

فرزند و عزیزان سکل خویش قبیلہ
دنیا ہے دغاباز نہیں کوئی تمہارا

بے حد ہے علیمؔ عشق کے تعلیم کا طومار
پایا نہیں کوئی عشق کے دریا کا کنارا


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.