آیا ہے مگر عشق میں دل دار ہمارا
Appearance
آیا ہے مگر عشق میں دل دار ہمارا
ہر تن میں ہوا جان ہر اک جسم کا نیارا
بے مثل اس کے حسن کو کہتے ہیں دو عالم
دستا ہے ہر اک خلق کو اپنے سوں پیارا
من کان نہ ہو یار کے درسن کو نہ جانے
آیا نہیں کوئی پھر کے جہاں بیچ دوبارا
اس شمع درخشاں کو اپس ساتھ تو لے جا
ور نہیں تو قبر بیچ ہے ظلمات اندھارا
کرنے میں جمع زر کے گنواتا ہے عمر کیوں
آخر کو نکل جائے گا سب چھوڑ ضرارا
فرزند و عزیزان سکل خویش قبیلہ
دنیا ہے دغاباز نہیں کوئی تمہارا
بے حد ہے علیمؔ عشق کے تعلیم کا طومار
پایا نہیں کوئی عشق کے دریا کا کنارا
This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication. |