Jump to content

آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا

From Wikisource
آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا
by شاہ مبارک آبرو
294406آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہواشاہ مبارک آبرو

آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا
جامہ گلے میں رات کے پھولوں بسا ہوا

کم مت گنو یہ بخت سیاہوں کا رنگ زرد
سونا وہی جو ہووے کسوٹی کسا ہوا

انداز سیں زیادہ نپٹ ناز خوش نہیں
جو خال حد سے زیادہ بڑھا سو مسا ہوا

قامت کا سب جگت منیں بالا ہوا ہے نام
قد اس قدر بلند تمہارا رسا ہوا

زاہد کے قد خم کوں مصور نے جب لکھا
تب کلک ہاتھ بیچ جو تھا سو عصا ہوا

دل یوں ڈرے ہے زلف کا مارا وہ پھونک سیں
رسی سیں اژدہے کا ڈرے جوں ڈسا ہوا

اے آبروؔ اول سیں سمجھ پیچ عشق کا
پھر زلف سیں نکل نہ سکے دل پھنسا ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.