آیا جو موسم گل تو یہ حساب ہوگا
آیا جو موسم گل تو یہ حساب ہوگا
ہم ہوں گے یار ہوگا جام شراب ہوگا
نالوں سے اپنی اک دن وہ انقلاب ہوگا
دم بھر میں آسماں کا عالم خراب ہوگا
دکھلائیں گے تجھے ہم داغ جگر کا عالم
منہ اس طرف کبھی تو اے آفتاب ہوگا
اے زاہد ریائی دیکھی نماز تیری
نیت اگر یہی ہے تو کیا ثواب ہوگا
وہ رد خلق ہوں میں گر ڈوب کر مروں گا
مردہ مرا وبال دوش حباب ہوگا
وہ مست ہیں ادھر تو رکھتے نہیں ہیں ساغر
مغرب سے ہاں نمایاں جب آفتاب ہوگا
اے زود رنج تجھ پر جو لوگ جان دیں گے
رہ رہ کے تربتوں میں ان پر عذاب ہوگا
خون سیاوش اک دن دکھلائے گا خرابی
اس ظلم کا عوض اے افراسیاب ہوگا
تو نقد دل کو لے کر مکرا تو ہی ٹھہر جا
روز حساب میرے تیرے حساب ہوگا
اللہ رے ان کا غصہ اتنا نہیں سمجھتے
کیوں کر کوئی جئے گا جب یوں عتاب ہوگا
داغ جگر کو لے کر جائیں گے ہم جو اے دل
جنت میں حوریوں کو رہنا عذاب ہوگا
کیا سیر ہوگی وہ مہ لایا اگر حرارا
چہرہ جو تمتمایا تو آفتاب ہوگا
وہ رند ہوں میں زاہد آنے دے حشر کا دن
اس روز بھی یہ بندہ مست شراب ہوگا
برسات ہے بہاریں ساقیٔ برق وش کو
چھایا ہوا چمن پر کیسا سحاب ہوگا
اے مہروش تو کیوں کر پردے میں چھپ سکے گا
ابر تنک کی صورت منہ پر نقاب ہوگا
اے چرخ پیر اب تو یہ حال ہے ستم کا
کیا ہوگا جن دنوں میں تیرا شباب ہوگا
اے مغبچوں تمہارا بایاں قدم میں لونگا
زاہد کا گر عمامہ رہن شراب ہوگا
دھوئے گا اپنے تلوے وہ بت جو سنگ پاسی
شیریں کا بے ستوں پر نقشہ خراب ہوگا
زلفوں کا عشق کیوں کر ان سے بیاں کروں گا
حال دل پریشاں گونگے کا خواب ہوگا
سر کشتگی میں میرا کیا ساتھ دے سکے گا
اے آسماں ٹھہر جا نا حق خراب ہوگا
فرقت میں ضبط نالہ ہم سے نہ ہو سکے گا
قابو میں دل نہ ہوگا جب اضطراب ہوگا
لکھے کی کیا خبر تھی یہ کون جانتا تھا
لیلہ کے ساتھ پڑھ کر مجنوں خراب ہوگا
ایمان تم صباؔ کا اس وقت دیکھ لینا
آنکھوں میں دم لبوں پر یا بو تراب ہوگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |