آگے جمال یار کے معذور ہو گیا
Appearance
آگے جمال یار کے معذور ہو گیا
گل اک چمن میں دیدۂ بے نور ہو گیا
اک چشم منتظر ہے کہ دیکھے ہے کب سے راہ
جوں زخم تیری دوری میں ناسور ہو گیا
قسمت تو دیکھ شیخ کو جب لہر آئی تب
دروازہ شیرہ خانے کا معمور ہو گیا
پہنچا قریب مرگ کے وہ صید ناقبول
جو تیری صید گاہ سے ٹک دور ہو گیا
دیکھا یہ ناؤ نوش کہ نیش فراق سے
سینہ تمام خانۂ زنبور ہو گیا
اس ماہ چاردہ کا چھپے عشق کیونکے آہ
اب تو تمام شہر میں مشہور ہو گیا
شاید کسو کے دل کو لگی اس گلی میں چوٹ
میری بغل میں شیشۂ دل چور ہو گیا
لاشہ مرا تسلی نہ زیر زمیں ہوا
جب تک نہ آن کر وہ سر گور ہو گیا
دیکھا جو میں نے یار تو وہ میرؔ ہی نہیں
تیرے غم فراق میں رنجور ہو گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |