Jump to content

آپ کیا ایک ستم گار بنے بیٹھے ہیں

From Wikisource
آپ کیا ایک ستم گار بنے بیٹھے ہیں
by مرزا مائل دہلوی
303749آپ کیا ایک ستم گار بنے بیٹھے ہیںمرزا مائل دہلوی

آپ کیا ایک ستم گار بنے بیٹھے ہیں
غیر بھی تو مرے غم خوار بنے بیٹھے ہیں

واعظوں کی بھی یہ توقیر ہے اللہ اللہ
پاسبان در خمار بنے بیٹھے ہیں

چشم ہے آب رواں سینے میں داغوں کی بہار
ہم بھی اک تختہ گل زار بنے بیٹھے ہیں

پوچھتے ہیں وہ مجھی سے یہ غضب تو دیکھو
آپ بھی طالب دیدار بنے بیٹھے ہیں

دل ربائی کے یہ انداز غضب ہیں تیرے
کہ ہوس پیشہ خریدار بنے بیٹھے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.