آپ اپنی بے وفائی دیکھیے
آپ اپنی بے وفائی دیکھیے
ہم سے اور ایسی برائی دیکھیے
بات پھر ہم سے بنائی دیکھیے
پھر وہی تقریر آئی دیکھیے
آئنہ اس بت کو دکھلا کر کہا
اور صورت ہاتھ آئی دیکھیے
عرش کی زنجیر پر طرہ ہوا
نالۂ دل کی رسائی دیکھیے
ہم اسیران طلسم خاک ہیں
کیا ہوا وقت رہائی دیکھیے
مار ڈالا منہ چھپا کر آپ نے
موت کس پردے میں آئی دیکھیے
آمد آمد موسم گل کی ہوئے
پھر طبیعت گد گدائی دیکھیے
داغ دل تارا ہے چشم مہر کا
عشق کی جلوہ نمائی دیکھیے
میری جانب یوں نظر کرنا نہ تھا
آپ نے بجلی گرائی دیکھیے
پھینکیے ہاتھوں سے پھولوں کی چھڑی
میری گل خوردہ کلائی دیکھیے
چشم پوشی اس قدر اچھی نہیں
اب تو جان آنکھوں میں آئی دیکھیے
ایک دن رو رو کے طوفاں لائیں گے
اس قدر ناآشنائی دیکھیے
واہ رے سرمہ لگانا آپ کا
شاخ نرگس ہے سلائی دیکھیے
صاف ہے آئینۂ اسکندری
اس مری دل کی صفائی دیکھیے
دیر ہوتی ہے ہماری قتل میں
یہ نہیں اچھی جھکائی دیکھیے
لائیے پلوائیے جام شراب
دیکھیے بدلے وہ آئی دیکھیے
مر گئے لیکن نہ راز دل کھلا
آہ بھی لب تک نہ آئی دیکھیے
وہ نہ آنا تھا نہ آئے اے صباؔ
رفتہ رفتہ موت آئی دیکھیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |