آنے اٹک اٹک کے لگی سانس رات سے
Appearance
آنے اٹک اٹک کے لگی سانس رات سے
اب ہے امید صرف خدا ہی کی ذات سے
ساقی ہوائے سرد کو تو سرسری نہ جان
کیفیت اس کی پوچھ نبات نبات سے
اپنا صنم وہ قہر ہے اے برہمن کہ گر
دیکھے منات کو تو گرا دیوے لات سے
کل سے تو اختلاط میں تازہ ہے اختراع
رکنے لگی ہیں آپ مری بات بات سے
پیش آئیے بشفقت و لطف اس سے شیخ جی
نبت العنب کو جانئے اپنے نبات سے
حاصل کیا جو ہم نے قدم بوس پیر دیر
آئی صدائے عشق در سومنات سے
ہیں واجب الوجود کے انوار عشق میں
اس کی صفات ذات نہیں ممکنات سے
اشعار طبع زاد مری سن کے شوخ وہ
کہنے لگا کہ فائدہ اس مہملات سے
مطلق ملا کے آنکھ ادھر دیکھتے نہیں
آتے نظر ہو آج بھی کم التفات سے
انشاؔ نے آ لگا ہی لیا تم کو بات میں
ظالم وہ چوکتا ہے کوئی اپنی گھات سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |