آنکھ سے پردہ نہ کر پردے کا گھر یہ بھی تو ہے
Appearance
آنکھ سے پردہ نہ کر پردے کا گھر یہ بھی تو ہے
تو تو دیکھے ہم نہ دیکھیں طرفہ تر یہ بھی تو ہے
بھول کر دیکھا تجھے آنکھوں میں ہے تیری شبیہ
دیکھتا ہی کیوں ادھر پیش نظر یہ بھی تو ہے
چھپ کے اس کو دیکھنا چاہیں تو دیکھیں کس طرح
دیکھتے دیکھے نہ کوئی ہم کو ڈر یہ بھی تو ہے
یوں صنم ہم سے صفائی کہ نہیں کرتے کلام
بات کرنے میں تمہارے اک ہنر یہ بھی تو ہے
ہے بہت مشتاق شاداںؔ کب ادھر آئے گا تو
اس طرف آ جا کہ تیری رہ گزر یہ بھی تو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |