آنکھ اس پرجفا سے لڑتی ہے
Appearance
آنکھ اس پرجفا سے لڑتی ہے
جان کشتی قضا سے لڑتی ہے
شعلہ بھڑکے نہ کیوں کہ محفل میں
شمع تجھ بن ہوا سے لڑتی ہے
قسمت اس بت سے جا لڑی اپنی
دیکھو احمق خدا سے لڑتی ہے
شور قلقل یہ کیوں ہے دختر رز
کیا کسی پارسا سے لڑتی ہے
نہیں مژگاں کی دو صفیں گویا
اک بلا اک بلا سے لڑتی ہے
نگۂ ناز اس کی عاشق سے
چھوٹ کس کس ادا سے لڑتی ہے
تیرے بیمار کے سر بالیں
موت کیا کیا شفا سے لڑتی ہے
زال دنیا نے صلح کی کس دن
یہ لڑاکا سدا سے لڑتی ہے
واہ کیا کیا طبیعت اپنی بھی
عشق میں ابتدا سے لڑتی ہے
دیکھ اس چشم مست کی شوخی
جب کسی پارسا سے لڑتی ہے
تیری شمشیر خوں کے چھینٹوں سے
چھینٹے آب بقا سے لڑتی ہے
سچ ہے الحرب خدعۃ اے ذوقؔ
نگہ اس کی دغا سے لڑتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |