آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
by مومن خان مومن
293986آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھومومن خان مومن

آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
ہے بو الہوسوں پر بھی ستم ناز تو دیکھو

اس بت کے لیے میں ہوس حور سے گزرا
اس عشق خوش انجام کا آغاز تو دیکھو

چشمک مری وحشت پہ ہے کیا حضرت ناصح
طرز نگہ چشم فسوں ساز تو دیکھو

ارباب ہوس ہار کے بھی جان پہ کھیلے
کم طالعی عاشق جاں باز تو دیکھو

مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اٹھے وہ
بدنامیٔ عشاق کا اعزاز تو دیکھو

محفل میں تم اغیار کو دز دیدہ نظر سے
منظور ہے پنہاں نہ رہے راز تو دیکھو

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

دیں پاکی دامن کی گواہی مرے آنسو
اس یوسف بے درد کا اعجاز تو دیکھو

جنت میں بھی مومنؔ نہ ملا ہائے بتوں سے
جور اجل تفرقہ پرداز تو دیکھو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse