آنسوؤں سے خون کے اجزا بدلتے جائیں گے
Appearance
آنسوؤں سے خون کے اجزا بدلتے جائیں گے
دل کے سب ارمان آنکھوں سے نکلتے جائیں گے
اک قیامت ہے عبارت وعدۂ دیدار کی
دن گزرتے جائیں گے معنی بدلتے جائیں گے
ہر نفس ہے شمع غم کا شعلہ میں جو کچھ کہوں
مثل پروانہ مرے الفاظ جلتے جائیں گے
ہے دگر گوں حال دل قاصد ہمیں بھی ساتھ لے
جابجا خط کی عبارت ہم بدلتے جائیں گے
عشق کی وادی میں ناطقؔ گر کے مرنا ہے ضرور
ہر قدم پر کب تک آخر ہم سنبھلتے جائیں گے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |