آمد تصور بت بیداد گر کی ہے
Appearance
آمد تصور بت بیداد گر کی ہے
دل کی بھی لوٹ خانہ خرابی جگر کی ہے
تقدیر کی کجی ہو کہ ٹیڑھا ہو آسماں
یہ سب عنایت آپ کی ترچھی نظر کی ہے
اک بار تیر مار کے اب تک خبر نہ لی
یا رب نگاہ مست یہ کس بے خبر کی ہے
یہ رنگ و بو کہاں گل تر کو نصیب تھا
اتری ہوئی قبا کسی رشک قمر کی ہے
پھر بھی کبھی نگاہ کرم ہوگی اس طرف
امید آج تک اسی پہلی نظر کی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |